بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی وقف کرنے کی شرعی حیثیت


سوال

 اگر کوئی بندہ یہ کہے کہ میں اپنی باقی زندگی جہاد کے لیے وقف کرتا ہوں، (یعنی جب ضرورت پڑی میدان جہاد میں جاؤں گا یا جہاد سے متعلق جس جگہ بھی میری ضرورت پڑی فرائض سر انجام دوں گا مالی اور جسمانی دونوں)  اس طرح پھر کچھ عرصے بعد دوبارہ یہ دعا کرے: یا اللہ میں اپنی زندگی آپ کی راہ میں وقف کرتا ہوں، مجھ سے اپنے دین کا کام لے لے، اس تناظر میں یہ سوال ہے کہ:

1- ان دونوں صورتوں میں اس نے جو وقف کا الفاظ استعمال کیا اس کی حیثیت کیا ہو گی؟ کیا اب اس پر پوری زندگی جہاد کرنا واجب ہو گیا ہے؟

2- کیا اس صورت میں وہ بندہ اب اپنی ماں، چھوٹے بہن بھائیوں اور اپنی باقی فیملی کی کفالت کر سکتا ہے جب کہ اس کے والد صاحب وفات پا گئے ہیں، اور گھر میں ساری فیملی کی ذمہ داری اس پر اور اس کے بڑے بھائی پر ہے؟

3- وہ ابھی شادی شدہ بھی نہیں ہے، اس صورت میں شادی کرنے کی اجازت ہوگی یا نہیں؟ یا اب باقی تمام زندگی جہاد یا دین کے کاموں کے لیے گزارنا ضروری ہے؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں  زندگی وقف کرنا اصطلاحی وقف نہیں، بلکہ یہ وقف تخصیص کے معنی میں ہے کہ خاص اس کام کو کروں گا،   اس لیے ساری  زندگی جہاد میں صرف کرنا سائل پر لازم نہیں، البتہ کوئی مسلمان اللہ پاک سے کوئی وعدہ کرلے تو حتی الامکان اس کو نبھاناچاہیے۔

بہرحال مذکورہ شخص کا بڑا بھائی اگر تنہا والدہ اور چھوٹے (نابالغ) بہن بھائیوں کا نفقہ نہیں اٹھا سکتا یا اکیلے اٹھانا نہیں چاہتا تو ان کا نفقہ اس شخص اور اس کے بھائی کے ذمے لازم ہوگا، اور اس ضمن میں سعی کرنا بھی شرعی فریضہ ہے، لہٰذا اسے چاہیے کہ وہ کسبِ حلال کرے، اور شادی کرنا بھی اس کے لیے منع نہیں ہے، پاک دامنی کی زندگی گزارنے کے لیے اسے نکاح کرنا چاہیے، اور اپنی زندگی کو ہر بے مقصد کام سے بچاکر تمام اوقات دین کے کاموں اور خدمت میں صرف کرنے کی کوشش کرے۔

فتاوى شامي  میں ہے:

" قوله: ( ومحله المال المتقوم ) أي بشرط أن يكون عقارا أو منقولًا فيه تعامل".

(كتاب الوقف، قبيل  مطلب قد يثبت الوقف بالضرور  (4/ 340)،ط.  سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها) أن يكون المحل عقارًا أو دارًا فلايصح وقف المنقول إلا في الكراع والسلاح، كذا في النهاية."

(كتاب الوقف، الباب الأول في تعريف الوقف وركنه وسببه وحكمه وشرائطه (2/ 357)، ط. رشيديه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144203200156

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں