بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں اولاد کو حصہ دے کر یہ معاہدہ کرلینا کہ بعد میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہوگا


سوال

ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوچکا ہے،انہوں نے 2003ءمیں ایک مکان خریداتھا،جس کی قیمت ساڑھے پانچ لاکھ روپے تھی،مرحوم کےچھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں،انہوں نے اپنی زندگی میں ایک بیٹے کو ایک لاکھ دس ہزار روپے دیے اور دیتے وقت کہا کہ یہ تمہارا حصہ ہوگیا اور تمہارا اب اس مکان میں کوئی حصہ نہیں ہوگااور اس بیٹے نے اس بات کو قبول بھی کرلیاتھا،پھر اس بیٹے نے اس میں اپنے ستر ہزار روپے اور ملا کر ایک لاکھ اسی ہزار کا کورنگی میں مکان خرید لیا،والد کے انتقال کے بعد ہم دو بھائی  مکان میں رہ رہے تھے،کچھ عرصے بعد بھائیوں نے وراثت کا مطالبہ کیا،والد مرحوم والے مکان کو ہم نے فروخت کیا،اب وہ بھائی جس کو والد نے ایک لاکھ دس ہزار روپے دیے تھے،وہ بھی آگئے مطالبہ کرنے اور وہ موصوف اس بات کا اقرار بھی کر رہے ہیں کہ والد نےپیسے دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب اس مکان میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ،پھر کبھی انکار بھی کرجاتے ہیں۔

(1) تو اب شریعت کی رو سے بتا دیجئے کہ جس بیٹے کو والد نے پیسے دے دیے تھے کیا اب والد مرحوم کے مکان میں ان کا حصہ ہے یا نہیں؟
(2) اس بیٹے نے جو ایک لاکھ اسی ہزار کا مکان خریدا تھا،اب اس کی قیمت پچیس لاکھ روپے ہے تو آیا یہ مکان وراثت میں ضم ہوگا یا نہیں؟

جواب

(1) صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کے والدصاحب نے اپنی زندگی میں اپنے ایک بیٹے کو  ایک لاکھ دس ہزار روپے دے کر یہ کہا تھا کہ یہ تمہارا حصہ ہوگیااورتمہارااب اس مکان میں کوئی حصہ نہیں ہوگااور اس بیٹےنے اس بات کوقبول بھی کرلیا تھا،تو اب والد کے انتقال کے بعد اس بیٹے کاوالدمرحوم کے متروکہ مکان میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے،اس بیٹے کو چاہیے کہ  والد کے ساتھ کیے ہوئےاپنے اس معاہدے کی پاسداری کرےاور مذکورہ مکان میں سے اپنے حصے کا مطالبہ نہ کرے۔

اگر مذکورہ بیٹا اپنے اس معاہدے کا اقرار کرچکا ہے، لیکن کبھی  انکار کرجاتا ہے تو سائل اور اس بیٹے کو چاہیےکہ اپنا سارا معاملہ کسی ثالث کے سامنے رکھیں اور سائل اپنے بھائی کے والد کے ساتھ کیےہوئے اس معاہدے پر یا بھائی کے اس معاہدے کا اقرار کرنے پر  شرعی گواہ (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں) پیش کرے،اگر وہ شرعی گواہ پیش کردے گا تو مذکورہ بیٹے کو والد مرحوم کے متروکہ مکان میں سےحصہ نہیں ملے گا اور اگر سائل شرعی گواہ پیش نہ کرسکا، تو مذکورہ بیٹا اپنے اس انکار پر قسم کھائے کہ میرا اپنے والد کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا اورنہ میں نے کبھی اس معاہدے کا اقرار کیا ہے،اگر وہ بیٹا اس طرح قسم کھا لے گا تواس کو والد مرحوم کے متروکہ مکان میں سے حصہ ملے گا۔

(2) جب سائل کے والد صاحب نے مذکورہ بیٹے کو ایک لاکھ دس ہزار روپے ملکیۃً دیے تھےاور پھر اس نے اس کے ساتھ اپنے ستر ہزار روپے ملا کر  مکان خریدا تھا،تویہ مکان اسی کی ملکیت ہے،اس مکان کو والد مرحوم کی وراثت میں تقسیم نہیں کیا جائے گا۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ ۚ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا (الإسراء34)"

"ترجمہ: اور عہد (مشروع) کو پورا کرو ، بیشک (ایسے) عہد کی باز پرس ہونے والی ہے۔(بیان القرآن)"

رد المحتار میں ہے:

"قال القهستاني: واعلم أن الناطفي ذكر عن بعض أشياخه أن المريض إذا عين لواحد من الورثة شيئًا كالدار على أن لايكون له في سائر التركة حق يجوز."

(کتاب الوصایا، ج:6، ص:655، ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فالبينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه لقوله عليه الصلاة والسلام: «البينة على المدعي و اليمين على المدعى عليه» جعل عليه الصلاة والسلام البينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه والمعقول كذلك لأن المدعي يدعي أمرا خفيا فيحتاج إلى إظهاره وللبينة قوة الإظهار."

(کتاب الدعویٰ، ج:6، ص:225، ط:سعید)

شرح المجلۃ لسلیم رستم باز میں ہے:

"لايجوز لأحد أن يتصرّف في ملك الغير بلا إذنه."

(المقدمة، المقالة الثانیة، المادۃ:96، ج:1، ص:51، ط:مکتبہ رشیدیه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100427

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں