بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں اپنی اولاد اور بیوی کو دو مکان ہر ایک کا حصہ متعین کرکے ہبہ(گفٹ) کرنا / شوہر کا ہبہ(گفٹ) کے مقصد کے بغیر صرف اپنی بیوی کے نام سے پلاٹ خریدنا۔


سوال

میرے والد صاحب کے دو مکان اور چار پلاٹ تھے،دومکان والد صاحب نے اپنی زندگی میں اپنےتین بیٹوں اور اپنی بیوی کو گفٹ کردیے تھےاور ان دونوں مکانوں میں سے ہر ایک کاحصہ علیحدہ علیحدہ متعین کرکے اس کے حوالے کردیا تھا،رجسٹری بھی کرائی تھی،ملکیت بھی دے دی تھی،ان مکانوں کا کرایہ والد کی زندگی میں بھی اور ان کے انتقال کے بعد بھی تینوں بیٹوں اور بیوہ کے تصرف میں تھا،نیز گفٹ کے وقت تمام بیٹے عاقل بالغ تھے۔

اسی طرح چار پلاٹوں میں سے دو پلاٹ والد صاحب نے اپنی بیوی کے نام سے خریدے تھے،لیکن گفٹ کرنا مقصد نہ تھااور نہ کبھی زندگی میں والد صاحب نے اپنی بیوی کو اس طرح کی کوئی بات کی تھی کہ یہ آپ کو گفٹ ہےاور وہ پلاٹ والد ہی کے قبضہ اور تصرف میں تھے،کرایہ بھی وہ خود ہی وصول کرتے تھے۔

اب والد صاحب کا انتقال ہوچکا ہے توپوچھنا یہ ہے کہ والدصاحب کا ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟

ورثاء میں بیوہ،تین بیٹےاور چار بیٹیاں ہیں،والد کے والدین ان سے پہلے ہی انتقال کرگئے تھے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کے والد صاحب زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کررہے تھے،تو ان کے لیے حکم یہ تھا کہ اولاد کے درمیان برابری کرتے،بعض کو دینا اور بعض کو نہ دینا شرعاً جائز نہیں تھا۔تا ہم اس کے باوجوداگر واقعۃً سائل کے والد صاحب نے اپنی زندگی میں اپنے دو مکان اپنےتینوں عاقل بالغ بیٹوں اوربیوی کوہبہ(گفٹ)کردیے تھے اور ان دونوں مکانوں میں سے ہر ایک کا حصہ علیحدہ علیحدہ متعین کرکے اس کے حوالے کردیا تھا،تویہ ہبہ تام ہوچکا تھا اور بیوی اور بیٹے اپنےاپنے حصے کے مالک بن گئے تھے،اب والد کے انتقال کے بعد ان دونوں مکانوں کو مرحوم کے ترکہ میں تقسیم نہیں کیا جائے گا،بلکہ یہ انہی ورثاء کے ہوں گے جنہیں زندگی میں مع قبضہ دے دیا تھا،اگر ان کو دیتے وقت اس طرح کاکوئی معاہدہ ہوا تھا کہ یہ ان کی میراث کا حصہ ہے،آئندہ ان کا والد کی میراث میں کوئی حصہ نہیں ہوگا،تو اب والد کی بقیہ جائیداد میں یہ افراد شریک نہیں ہوں گے،لیکن اگر اس طرح کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھاتو والد کی بقیہ جائیداد میں یہ افراد بھی دیگر ورثاء کے ساتھ شریک ہوں گے۔

نیز اگر واقعۃً سائل کے والدصاحب نے دو پلاٹ صرف اپنی بیوی کے نام سے خریدے تھے،اس سےوالد صاحب کا مقصد اپنی بیوی کو وہ پلاٹ گفٹ کرنا اور بیوی کو ان کا مالک بنانا نہیں تھااور زندگی میں والد صاحب نے اپنی بیوی کو اس طرح کی کوئی بات نہیں کی تھی کہ یہ پلاٹ آپ کو گفٹ ہےاوروہ پلاٹ والد صاحب کے قبضہ اور تصرف میں ہی تھے،تو اس صورت میں یہ دونوں پلاٹ  والد صاحب کی بیوی کی ملکیت میں داخل نہیں ہوئے تھے،بلکہ ان پر والد صاحب کی ملکیت ہی باقی تھی اور اب والد صاحب کے انتقال کے بعد وہ دونوں پلاٹ والد مرحوم کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوں  گے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب ولا يكون متصلا ولا مشغولا بغير الموهوب."

(كتاب الهبة، الباب الاول، ج:4، ص:374، ط:رشيديه)

رد المحتار میں ہے:

"(وقوله: بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: جعلته باسمك، لايكون هبة."

(کتاب الھبة، ج:5، ص:689، ط:سعید)

الدر المختار میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."

(رد المحتار، کتاب الھبة، ج:5، ص:690، ط:سعید)

سائل کے والد مرحوم کے ترکہ کی شرعی تقسیم اس طرح ہوگی کہ کل ترکہ میں سےسب سے پہلے مرحوم کےحقوقِ متقدمہ  یعنی تجہیز وتکفین  کا  خرچہ نکالنے کےبعد،مرحوم کے ذمہ  اگرکوئی قرض ہو تو اسے ترکہ میں سے ادا کرنے کے بعد،اگرمرحوم نے  کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی حصے میں سےادا کرنے کے بعد،باقی ماندہ کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کے80حصے کرکے مرحوم کی بیوہ کو 10حصے،ہر ایک بیٹے کو14حصےاور ہر ایک بیٹی کو7حصے ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:(والد مرحوم)80/8

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
101414147777

یعنی100فیصد میں سے مرحوم کی بیوہ کو12.50 فیصد،ہر ایک بیٹے17.50 کو فیصد اور ہر ایک بیٹی کو8.75 فیصد حصہ ملے گا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100087

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں