میری امی نے ایک مکان 19لاکھ 50ہزار کا خریدا، چھت انتہائی بوسیدہ تھی، امی کی خواہش تھی کہ اوپر کا پورشن بنوایا جائے، تو میں نے امی کی اجازت سے اس کے خواہش کا احترام کرتے ہوئے ساڑھے بارہ لاکھ روپے خرچ کرکے اوپر کا پورشن بنوایا، میرا ایک بھائی افریقہ گیا ہے، اس لیے نیچے کا پورشن خالی پڑاہے، اور اوپر کے پورشن میں ہم کچھ عرصہ رہیں، پھر میں نے دوسرا مکان خریدنے کی وجہ سے اوپر کا نیا بنایا ہوا پورشن کرایہ پر دے دیا، جس کا کرایہ میرے پاس آتا ہے، اس گھر کی تقسیم کا شرعی طریقہ بتائیں اور کرایہ کا بھی حکم بتائیں۔ہماری والدہ حیات ہے، ورثاء میں ہم دوبیٹے،چار بیٹیاں ہیں،ہمارے والد کا انتقال ہوگیا ہے۔
وضاحت: مذکورہ تعمیر والدہ کی اجازت سے کی تھی، نیز یہ بھی زبانی معاہدہ ہوا تھا کہ مجھے اپنا پیسہ واپس ملے گا۔مذکورہ مکان والدہ کی ملکیت ہے۔
مذکورہ مکان سائل کی والدہ کی حیات میں ان ہی کی ملکیت ہے، ان کی اجازت کے بغیر اس مکان کو فروخت کرنا، یا تقسیم کرناجائز نہیں، اسی طرح مذکورہ کرایہ بھی سارا کا سارا والدہ ہی کا حق ہے، والدہ کی اولاد کااس کی زندگی میں کوئی حق نہیں، البتہ سائل نے مذکورہ پورشن کے بنوانے میں جتنی رقم خرچ کی ہے، اپنی خرچ کردہ رقم کا حق دار ہے، اگر والدہ کے انتقال کے بعد اس مکان کو تقسیم کرنا ہو، تو سائل اپنے خرچ کردہ رقم منہا کرکے باقی مکان والدہ کی تمام ورثاء میں شرعی قاعدہ کےمطابق تقسیم کردیا جائے۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"المراد من التركة ما تركه الميت خاليا عن تعلق حق الغير بعينه"۔
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ،8/ 557،دارالكتب الاسلامی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307100402
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن