بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں بیٹی بیٹوں کے درمیان جائیداد تقسیم کرنے کا طریقہ


سوال

 اگر والدین اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اولاد میں تقسیم کریں تو شرعی طور پر وہ تقسیم کیسے کریں گے،؟ کیا جو حصے قرآن مجید میں بتائے گئے ہیں ان کے مطابق تقسیم ہو گی یا یہ تقسیم کسی اور اصول کے تحت کی جائے گی ،؟ حصے دار درج ذیل ہیں والدین، 4 بیٹے، 2 بیٹیاں۔ تفصیلی جواب دے کر ممنون فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ ہر  شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے، وہ اس میں ہر جائز تصرف  کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ مالک  کو اس کی اپنی ملک میں جائز تصرف  کرنے سے منع کرے ،نیز  والد ین کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا ان کی جائیداد میں   کوئی حق  و حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق ہے،  تاہم اگر صاحبِ جائیداد اپنی  زندگی میں  اپنی جائیداد  اپنی خوشی  ورضامندی سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور یہ تقسیم شرعاً  ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے (وراثت نہیں ) اور رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ،یعنی جتنا ہر ایک بیٹے کو دے اتنا ہی ہر ایک بیٹی کو بھی دے ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: أكل ولدك نحلت مثله؟ قال: لا قال: فأرجعه ، وفي رواية قال: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم."  

(مشکاۃ المصابیح، کتاب الهبة، باب العطایا، ج:1، ص:261، ط:قدیمي کتب خانه)

ترجمہ:"حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔"

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر والدین اپنی  زندگی میں اپنی خوشی سے جائیداد اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہیں ، تو کر سکتے ہیں،اور  اس کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلےاپنی ضرورت کے لیے جتنا  مال اپنے پاس رکھنا چاہے رکھ لیں ،تا کہ بوقتِ ضرورت کام آئے اور کسی کی محتاجی نہ ہو،اس کے بعد اپنی بقیہ جائیداد اپنے تمام بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان برابر ،برابر تقسیم کردے، بلاوجہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ نہ دے،ورنہ گناہ گار ہو گا،البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت  ودین داری یا غربت  کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دینا چاہے  تو اس کی اجازت ہے۔

ملحوظ رہے کہ شرعاً ''ہبہ'' مکمل ہونے کے لیےضروری ہے کہ جائیداد وغیرہ تقسیم کرکے ہر ایک کو اس کے حصے پر ایسا قبضہ دے دیا جائے کہ اس کو اس میں تصرف کرنے کا پورا اختیار ہو، ورنہ محض نام کردینے سے شرعاً ہبہ مکمل نہیں  ہوتا۔

فتاوی شامی  میں ہے :

"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرًا أحدًا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه، و في صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله و اعدلوا في أولادكم»، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا و الوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية: ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره، وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى."

(کتاب الوقف ،مطلب في المصادفة علی النظر،ج:4ص: 444،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لو وهب شئیاً لأولادہ فی الصحة، وأراد تفضیل البعض علی البعض ، عن أبی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالی: لابأس بہ اذا کان التفضیل لزیادة فضل فی الدین ، وان کانا سواء، یکرہ، وروی المعلی عن أبی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ لابأس نہ اذا لم یقصد بہ الاضرار ، وان قصد بہ الاضرار ، سوی بینہم وہو المختار  ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، فلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ." 

(كتاب الهبة ، الباب السادس فى الهبة للصغير، ج:4، ص:391، ط: مكتبه رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."

 (رد المحتار،کتاب الهبة، 5/ 690 ط:سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."

(الباب الثانی فیما یجوز من الھبة وما لایجوز، ج:4،ص:378،ط:مکتبة رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة."

(الدر المختار و حاشية ابن عابدين ، كتاب الهبة 5 / 689 ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401101310

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں