بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد کی تقسیم کے دوران غریب بیٹے کو زیادہ حصہ دینے کا حکم


سوال

اگر کسی عورت کے تمام بچے امیر ہوں، ایک بچہ غریب ہو،تو کیا وہ اپنےاس  غریب بچے کو اپنی ساری جائیداد یا جائیداد میں سے کچھ حصہ اپنی وفات سے پہلے دے سکتی ہے ؟کیا اسلام میں ایسا کرنا جائز ہے؟ مثال کے طور پر ایک تہائی یا دو تہائی جائیداد اس غریب بچے کو دے دی جائے ،اور بقیہ جائیداد تمام بچوں میں تقسیم کر دی جائے، کیا ایسا کرنا جائز ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ  اگر کوئی شخص زندگی میں اپنی جائیداد اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہے تو اس کی حیثیت تحفہ (گفٹ) کی ہے، اور  شریعت ِ مطہرہ کی نگاہ میں  اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس میں تمام اولاد کو برابر رکھا جائے، بلا عذرِ شرعی کمی بیشی نہ کی جائے، تاہم   اولاد میں سے کسی فرد  کو اس کی ضرورت  یا خدمت یا معذوری  یا دینی شرافت کی وجہ سے کچھ زیادہ دینا بھی درست ہے، بشرطیکہ دوسری اولاد کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو۔

 صورتِ مسئولہ میں مذکورہ عورت   کے لیےاپنی جائیدادزندگی میں تقسیم کرنے کا  طریقہ یہ ہے   کہ پہلے اپنے لیے جس قدر حصہ مناسب سمجھیں رکھ لیں؛ تاکہ ضرورت  کے وقت کام آئے، اور دوسروں کی طرف محتاج نہ ہوں، اس کے بعد بقیہ جائیداداپنی تمام اولاد میں برابر تقسیم کریں،اورغریب بیٹےکو دیگر  بچوں کے مقابلہ میں  زیادہ حصہ دینا چاہیں تو اس کی گنجائش ہے،بشرطیکہ دیگر کو ضرر پہنچانا مقصود نہ ہو، نیزمکمل جائیداد غریب بیٹےکو دے کر بقیہ تمام اولاد کو محروم کرنا درست نہیں ہے، البتہ اگر تقسیم سے قبل وہ اپنا حصہ غریب بھائی کودینے پر راضی ہوں یا پھر تقسیم ہونے کے بعد ازخود اس غریب بیٹے کو اپنا حصہ حوالہ کردیں تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"في الحديث أنه - صلى الله عليه وسلم - قال «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو ‌وهب ‌شيئا ‌لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى."

(کتاب الوقف، مطلب:فی المصادفة علی النظر، ج:4، ص:444، ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد ‌تفضيل ‌البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية."

(کتاب الهبة، الباب السادس فی الهبة للصغیر، ج:4، ص:391، ط:دارالفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405100269

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں