بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں اولاد کو چار دکانیں الگ الگ متعین کرکے ہبہ کرنے اور ایک دکان مشترکہ طور پر ہبہ کرنے کا حکم


سوال

ہمارے والد نے اپنی زندگی میں اپنی وہ جائیداد جو کراچی میں تھی اپنے سات بیٹوں میں مکمل قبضے اور مالکانہ تصرف کے ساتھ تقسیم کر دی تھی،اس طرح کہ چار بیٹوں کو تو الگ الگ ایک ایک خالی دکان دے دی تھی ،اور تین کو ایک دکان مع سامان مشترک طور پر دےدی تھی،یعنی یہ کہا تھا کہ یہ دکان تم تینوں کی برابر ،برابر ہے،اور ان کے قبضہ میں بھی دےدی تھی ،اور تب سے  بھائی ہی اسے چلا بھی رہے ہیں ،یہ تقسیم والد صاحب نے 2006 میں کی ،پھر 2010 میں والد صاحب کا انتقال ہو گیا ،والد صاحب کے انتقال سے ایک ماہ پہلے ایک اور بیٹے کی ولادت ہوئی۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ تقسیم کے بعد پیدا ہونے والا بیٹا تقسیم شدہ جائیداد(دکانوں ) میں حصہ دار ہو گا یا نہیں؟

وضاحت:جو دکان تین بھائیوں کو دی، اس کی چوڑائی 21 فٹ اور لمبائی 50 فٹ ہے،  اس میں برف اور پیپسی کا کاروبار کرتے ہیں،اس دکان کو اگر تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے تو بہت ہی چھوٹی ہو جائے گی اورہمارا جو کاروبار چل رہا ہےوہ اس طرح سے پھر نہیں چل سکےگا ،خراب ہو جائے گا،اس کے علاوہ گاؤں میں والد کی میراث میں 3 ایکڑ زمین اور ایک ایکڑ پر مشتمل گھر ہے ،جسے ہم نے تقسیم کرناہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں والدِ مرحوم نے جن چار بھائیوں کو ان کے حصے کی دکان الگ الگ متعین کر کے ان کے قبضہ وتصرف  میں دےدی تھی،ان کا  ہبہ(گفٹ) مکمل ہو چکا تھا،اور ان چار بھائیوں کی ملکیت  اپنے اپنے حصےکی دکان پر ثابت ہو چکی تھی،البتہ  جن تین بھائیوں کو ایک دکان مع سامان مشترکہ طور پر ہبہ کی تھی،تو چونکہ مذکورہ دکان(کی چوڑائی 21 فٹ اور لمبائی 50 فٹ ہے، جو کہ)قابلِ تقسیم و قابلِ انتفاع ہے ،اور والد ِمرحوم نے اس کے الگ الگ حصے متعین کر کے مذکورہ تینوں بیٹوں کو ہبہ(گفٹ) نہیں کی ،اس لئے مذکورہ دکان کا ہبہ( گفٹ) شرعاً مکمل نہیں ہوا،اور دکان بدستور والد ہی کی ملکیت میں برقرار رہی،(اگرچہ بیٹوں کے قبضہ و تصرف میں دے دی ہو)لہذااب  والد کی دیگر متروکہ جائیداد کے ساتھ مذکورہ دکان بھی تمام شرعی ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گی ۔

البتہ جن چار  بیٹوں کو والد کی جائیداد میں سے ایک ایک دکان مل چکی ہے،انہیں چاہئے کہ وہ والد کی بقیہ میراث کی تقسیم کے موقع پر اپنےدیگر بھائیوں کی رعایت کرتے ہوئے انہیں اپنےشرعی  حصے میں سے بھی کچھ دےدیں تا کہ تمام بھائی آپس میں خوش رکھیں،یہ ان کے لئے باعثِ اجر و ثواب اور آپسی محبت کا ذریعہ ہو گا۔

نیز:بڑے تمام بھائی چونکہ والدِمرحوم کی جائیداد سے کچھ نا کچھ فائدہ اٹھا چکے ہیں،اس لئے ان کو چاہئے کہ وہ سب اپنے اپنے حصے میں سے کچھ،کچھ ملا کر سب سے چھوٹے بھائی کو دیں،تا کہ اس کے حصے کی کمی پوری ہو سکے،اور والدِمرحوم بھی گناہ گار ہونے سے بچ جائے۔

باقی والدِمرحوم  کی میراث کی شرعی تقسیم ،ورثاء کی تفصیل بتا کر دارالافتاء سے معلوم کی  جاسکتی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."

(کتاب الهبة، ۵/۶۹۰، ط:سعید)

البحرالرائق ميں هے:

"وفي الموهوب ‌أن ‌يكون ‌مقبوضا غير مشاع متميزا غير مشغول على ما سيأتي تفصيله وركنها هو الإيجاب والقبول وحكمها ثبوت الملك للموهوب له غير لازم حتى يصح الرجوع والفسخ"

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق7/ 284، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

’’لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية‘‘. 

(کتاب الہبۃ،الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز،4/378 ،ط: رشیدیہ)

وفیہ ایضا:

ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة

(کتاب الہبۃ، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز،ج:4،ص:374،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"وتصح في محوز مفرغ عن أملاك الواهب وحقوقه ومشاع لايقسم ولايبقى منتفعًا به بعد القسمة من جنس الانتفاع الذي كان قبل القسمة كالبيت  الصغير والحمام الصغير ولا تصح في مشاع يقسم ويبقى منتفعا به قبل القسمة وبعدها، هكذا في الكافي".... ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا ، هكذا في المحيط .

(کتاب الہبۃ، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز،4/374،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100277

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں