بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں اولاد کے درمیان فلیٹ تقسیم کرنے کا طریقہ


سوال

 میرے دوست کی والدہ حیات ہیں اور وہ اپنا فلیٹ بیچ کر اس کی رقم اپنے بچوں میں تقسیم  کرنا چاہتی ہیں اور اپنے لیے بھی اس میں سے حصہ رکھنا چاہتے ہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ آیا کہ وہ پانچ بچوں میں برابر برابر حصہ بانٹ سکتی ہیں یا پھر شرعی حیثیت سے حصہ بانٹنا ہوگا؟ ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔

جواب

ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ہوتا ہے اور ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے،  نیز  اگر صاحبِ جائیداد اپنی  زندگی میں  اپنی جائیداد  خوش دلی سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو ا س کا بھی اختیار ہے، اور اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا ہبہ (گفٹ) کہلاتا ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

'' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''۔

(مشکاۃ  المصابیح، 261/1، باب العطایا، ط: قدیمی)

”حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔“

اور صاحبِ جائیداد کی طرف سے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ   اپنی جائیداد میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ مال اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی۔

البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت  ودین داری یا غریب ہونے کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے۔

صورتِ مسئولہ میں والدہ کی زندگی میں فلیٹ تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ فلیٹ بیچ کر  اپنی ضرورت کے لیے جتنی رقم  چاہیں رکھ لیں ، اس کے بعد کُل رقم کے 5 حصے کرکے بیٹے اور بیٹیوں میں سے ہر ایک کو برابر برابر ایک ایک حصہ دے دیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"حاصل ‌ما ‌ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال «‌سووا ‌بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى."

(کتاب الوقف، ج:4، ص:444، ط:دار الفکر)

شرح مختصر الطحاوي للجصاص ميں ہے:

"وهذا أيضا يدل على التسوية، لأنه قال: هل لك ولد غيره؟ ولم يسأله عن الذكر والأنثى منهم، وأوجب أن يساوي بينهم في العطايا.

ويدل عليه أيضا: ما روى في بعض ألفاظ حديث النعمان بن بشير حين قال: أشهد على هذا غيري، ثم قال:"أيسرك أن يكونوا لك في البر سواء؟ قال: بلى. قال: فلا إذا. ومعلوم أن محبته لمساواتهم في البر، لا تختص بالذكر دون الأنثى، وكذلك فيما يعطيهم.

ويدل عليه: ما حدثنا عبد الباقي بن قانع قال: حدثنا الحسن بن علي بن محمد بن سليمان القطان قال: حدثنا عباد بن موسى قال: حدثنا إسماعيل بن عياش قال: حدثنا سعيد بن يوسف الرحبي عن يحيى بن أبي كثير اليمامي عن عكرمة عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ساووا بين أولادكم في العطية، فلو كنت مفضلًا لفضلت البنات، فلم يفرق بين الذكور والإناث حين أمر بالمساواة بينهم. وقوله: ولو كنت مفضلا لفضلت البنات: يدل على التسوية أيضًا."

(كتاب العطايا، أحکام الھبة، 25/4، ط: دار البشائر الاسلامیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144604101409

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں