بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد کی تقسیم میں بیٹے کو بیٹی سے دگنا دینے کا حکم


سوال

ہمارے علاقوں میں بہنوں کو میراث میں سے حصہ شرعی طریقے سے دینے کا رواج نہیں ہے، اس لیے کوئی شخص اپنی زندگی میں جائیداد اس نیت سے تقسیم کردے کہ بچیوں کو بھی کم از کم اتنا حصہ مل جاۓ جتنا شریعت نے ان کے لیے باپ کے انتقال کے بعد  مقرر کیا ہے، اس کی نیت بچیوں کو جائیداد سے محروم کرنے کی نہ ہو، اس نیت سے اپنی جائیداد کو ’’للذکر مثل حظ الأنثیین‘‘کے تحت تقسیم کردے  تو شریعت میں اس کی کیا گنجائش ہے؟ اور کیا اس کو اولادمیں برابری نہ رکھنے کاگناہ ملے گا؟ اور کیا کوئی  شخص اس طرح اپنی جائیداد اپنی زندگی میں تقسیم کرے توبیٹے جائیداد کے مالک بن جائیں گے یا نہیں؟

جواب

اگر صاحبِ جائیداد زندگی میں بھی  اپنی جائیداد  رضامندی اور خوشی سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو اس کی اجازت ہے ، لیکن اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہے، رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا  ہے، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» و في رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»'۔

(مشکاۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

(مظاہر حق،باب العطایا 3/ 193 ط: دارالاشاعت)

 زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ   اپنی جائیداد میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے اور بقیہ مال اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کرے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے،مذکورہ حدیث کی بنیاد پر فتوی اس پر دیا جاتا ہے کہ کسی شرعی وجہ کے بغیر مثلاً خدمت ، دین داری وغیرہ نہ ہو تو  برابری ہی کرے۔

اگر صاحبِ جائیداد  اپنی  زندگی میں اپنی بعض  اولاد  کو کچھ دینا چاہے اور دوسرے   دل سے اس پر رضامند ہوں ، ان پر کسی قسم کا دباؤ وغیرہ نہ ہو اور صاحبِ جائیداد کا مقصد بھی ان اولاد کو محروم کرنا یا نقصان پہنچانا نہ ہو، بلکہ کسی بنا پر وہ اپنے بعض بچوں کو کچھ دے رہا ہے تو  یہ جائز ہے، لہذا اگر کوئی شخص اس نیت سے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اولاد کے درمیان تقسیم کرے کہ اس کی بچیوں کو جائیداد میں سے حصہ مل جائےاور  موت کے بعد بیٹیوں کا وراثت سے محروم رہنے کا خطرہ ختم ہوجائے اور تقسیم میں میراث کے ضابطے کے مطابق لڑکے کو لڑکی کا دگنا حصہ دے تو بیٹیوں کو اعتماد میں لے کر ایسا کرنے کی اجازت ہے، پھر اگر والد اولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کرکے ہر ایک کو اس کے حصہ علیحدہ کرکے مالکانہ اختیارات کے ساتھ قبضہ بھی دے دے تو وہ چیز اس شخص کی ملکیت میں آجائے گی جسے وہ چیز ہبہ کی گئی ہے۔

"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرًا أحدًا لآثرت النساء على الرجال»، رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم»، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية : و لو وهب شيئًا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره، و روى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى، و قال محمد : ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيًا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف :وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل".

(رد المحتار، كتاب الوقف 4/ 444 ط:سعيد)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144108200554

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں