بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد کی تقسیم


سوال

میرے 12ورثاہیں، ایک بیوی، پانچ بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں،میں ضعیف ہوگیاہوں اورصاحبِ فراش ہوں، میرے پاس ایک جائیداد ہے، میں چاہتاہوں کہ زندگی میں ہی اس جائیدادکوبیچ کراپنے ورثاء کے درمیان میراث کے اصول کے مطابق تقسیم کروں،  تاکہ میرے مرنے کے بعد ورثاء کے درمیان فساد فی الارض کاخطرہ نہ ہو ،نیزمیرے کچھ لین دین ہیں، اسے بھی ادا کرناہے اور تقسیم کا طریقہ بھی شریعتِ محمدیہ کی روشنی میں جواب عنایت فرماکرمشکور فرمائیں ۔

جواب

زندگی میں اگر کوئی شخص اپنا  مال /جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہےتو شریعت کی رو سے یہ والد کی طرف سے  اولاد کے لیے ہدیہ ہوتا ہے، زندگی میں اپنا مال تقسیم کرنے  کا صحیح طریقہ  یہ ہے کہ تمام  اولاد کو برابر حصہ دیا جائے  ، جتنا حصہ بیٹوں کو دیاجائے  اتنا ہی بیٹیوں کو بھی دیا جائے ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل اپنی زندگی میں  اگر اپنی خوشی سے اپنی جائیداداپنےورثاء میں تقسیم کرنا چاہتا ہو، تو سب سے پہلے اپنے  اخراجات اور ضروریات  کے لیے جس قدر روپیہ/جائیداد   رکھنا چاہتا ہے اپنی صواب دید کے مطابق اتنی  رکھ لے،پھر سائل کےذمہ جو لین دین کے معاملات ہیں ان کو ادا کرے،  اس کے  بعد بقیہ جائیداد میں سےآٹھواں حصہ اپنی بیوی کو اور   باقی جائیداد اپنی تمام اولاد (پانچ بیٹے اورچھ بیٹیاں) کے درمیان برابر برابر تقسیم کردے، تقسیم کا یہ طریقہ کار  اس صورت میں ہے جب کہ سائل کے دونوں والدین کا انتقال ہوچکا ہو،البتہ اگر والدین یا ان میں سے ایک زندہ ہو تو تفصیل ذکر کرے دوبارہ سوال ارسال کریں۔

مشکوۃ المصابیح میں ہے؛

'' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: أكل ولدك نحلت مثله؟ قال: لا قال: فأرجعه. وفي رواية ...... قال: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم."

(باب العطایا،ج:1،ص:261، ط: قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100655

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں