بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نافرمان بیٹے کو میراث سے محروم کرنا،بہو کے لیے زیور مختص کرنا،زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا


سوال

1۔میرے دو بیٹے اور سات بیٹیاں ہیں ، ان میں سے دو بیٹوں نے میرے ساتھ بد تمیزی کی ہے، اور مجھے مارا  بھی ہے، اب میں چاہتاہوں کہ اپنی جائیداد سے ان کو محروم  کردوں ، وہ میرے جائیداد کے وارث نہ بنے ، تو کیا میرے لیے ایسا کرنا شرعا جائز ہے؟

اگر مذکورہ طریقہ جائز نہیں تو کوئی ایسا طریقہ ہے کہ میں باقی اولاد کو حصہ دوں ،لیکن ان کو حصہ نہ دوں ؟

اگر اولاد کو حصہ دینا ہو  تو زندگی میں تقسیم کرنے کی صورت میں  ان کو کتنا حصہ ملے گا ،اور مرنے کے بعد کتنا حصہ ملے گا، دونوں صورتوں کا الگ الگ حکم بتادیں ؟

2۔میں نے اپنے بیٹوں کی شادی میں ان کی بیویوں کے لیے کچھ زیور مختص کیے تھے لیکن دیے نہیں تھے ، اب وہ مجھ سے اس کا تقاضہ کر رہی ہیں تو وہ زیور مجھ پر دینا لازم ہے یا نہیں ؟

جواب

سوال کئی شقوں پر مشتمل ہے، ہر ایک کا جواب نمبر وار درج ذیل ہے:

1۔صورتِ مسئولہ میں  جن بیٹوں نے  اپنے والد صاحب سے بد تمیزی کی ہے اور انہیں ماراہے،انہوں نے  شرعا واخلاقابہت سنگین جرم کا ارتکاب کیاہے، والدین کی  نافرمانی اور ان کی ایذا  رسانی  حرام اورکبیرہ گناہ  ہے، قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ  میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کی بڑی تاکید آئی ہے،  اور والدین کی نافرمانی،  ان کے ساتھ   بدکلامی  کے ساتھ پیش آنے، اور والدین کو ستانے کی بہت وعیدیں آئی  ہیں۔ لہذا بیٹوں پر لازم ہے  کہ اس گناہ پر ندامت کے ساتھ توبہ اور استغفار کریں اور  فوری طور پر اپنے والدصاحب سے معافی مانگیں ۔

تاہم  والد کو چاہیے کہ  اپنے  بیٹوں کو وعظ ونصیحت کرکے  ا ن کی اصلاح کریں ، اس لیے کہ  نافرمان بیٹے  ، سدھر بھی سکتے ہیں  ،نیک بھی بن سکتے ہیں  ، لہذا دعا اور حسن تدبیر سے اصلاح کی کوشش جاری رکھنی چاہیے ، جائیداد و غیرہ سے محروم کرنے میں اور خرابیاں  پیدا ہوں گی  اور اس میں بیٹوں  کی نافرمانی  مزید بڑھ جانے کا بھی اندیشہ ہے ۔زیرنظرمسئلے میں سائل کے مذکورہ دونوں بیٹوں نے اگر سائل سے معافی مانگ لی ہوتو سائل معاف کردے اور جائیداد میں سے حصہ بھی دے ،لیکن اگر وہ بدستور اپنے رویہ پر قائم ہیں تو ایسی صورت میں جائیدادکی تقسیم کے وقت سائل ان دونوں بیٹوں کو بالکل محروم کرنے کے بجائے صرف اتنا مال دے جو ان کی ضرورت کے بقدر ہو،ضرورت سے زائد نہ دے اور اگر سائل ان کو معاف کردیتاہے تو ایسی صورت میںاپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ اپنی جائیداد میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لےتاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ مال اپنی  تمام  اولاد میں برابربرابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا۔

البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  اس کی شرافت  ودین داری یا غریب ہونے کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو اس کی اجازت ہے۔

باقی سائل کے انتقال کے بعد  جائیداد کی تقسیم کا سوال قبل  از وقت ہے ، سائل کے  انتقال کے وقت  کتنے  ورثاء ہوں گے اس کا کسی کو علم نہیں ۔

2۔صورتِ مسوئلہ میں سائل نے اپنے بیٹوں کی شادی میں ان کی بیویوں کے لیےجو زیورات مختص کیے تھے لیکن دیے نہیں تھے،توصرف مختص  کرنے سےوہ زیورات سائل کے بہوں  کی ملکیت نہیں ہوتے تھے، سائل کی ملکیت بدستور اس پر برقرار ہے،لہذاسائل کے ذمے وہ زیورات اپنی تمام بہووں کو دینا  لازم نہیں ، البتہ سائل نے چونکہ دینے کے لیے مختص کردیے تھے ، لہذا اخلاقا سائل کو چاہیے کہ و ہ زیورات اپنی تمام بہووں کو دےدے۔

قرآن مجید میں ہے:

وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا  ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا   23؀ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا   24؀ۭ

ترجمہ :اور تیرے رب نے حکم کردیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا۔ اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انھوں نے مجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔                                   بیان القرآن

مشکات المصابیح میں حدیث ہے:

وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم

مشكاة المصابيح  1/261، باب العطایا، ط: قدیمی

ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

(مظاهر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے:

ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 444)

در مختارمیں ہے:

 (وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303101052

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں