اگر کوئی شخص زندگی میں اپنے اقربا میں جائیداد تقسیم کرنا چاہے تو کس کس کو اور کتنا کتنا حصہ دے گا؟ کیا اس میں بھی وراثت کی طرح تقسیم ہو گی؟
واضح رہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اولاد میں تقسیم کرنا چاہتا ہو تو اسے چاہیے کہ اپنے لیے بقدرِ ضرورت رکھنے کے بعد سب میں برابر، برابر تقسیم کریں، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا بیٹی کو بھی دے،البتہ دین دار ی ،خدمت یاغربت کی بنیاد پر کچھ زیادہ دیا جاسکتا ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
’’ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك.... لا بأس به إذا لم يقصدبه الإضرار وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي الابن‘‘
(ج:8، ص:455 ط:دارالفکر)
مجلۃ الاحکام العدلیة میں ہے:
’’کل یتصرف فی ملکہ کیفما شاء ،لکن اذا تعلق حق الغیر بہ فیمنع المالک من تصرفہ علی وجہ الاستقلال‘‘
(ج:1/ص:230) فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144201201080
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن