بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کی شرعی حیثیت اور اس کا طریقہ


سوال

ہمارے والد محترم نے دو شادیاں کی ہیں،  ایک والدہ سے 4بھائی اور5 پانچ بہنیں ہیں،  جب کہ دوسری والدہ سے 3 بھائی اور 3بہنیں ہیں، دونوں والدہ حیات ہیں،  10 مرلہ مشترکہ مکان ہے،  ایک بیٹھک ایک کچن  اور 3 کمرے  ہیں، والد محترم کی خواہش ہے کہ میں اپنی زندگی میں ہی اس کو تقسیم کرلوں ،تا کہ  بعد میں نزاع وغیرہ  یا  کسی کی حق تلفی نہ ہو،  اللہ کے حضور مواخذہ نہ ہو،  شرعی طور پر تقسیم کے حصص کے بارے میں وضاحت فرماکر مشکور وممنون فرمائیں۔

جواب

ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے،والد ین کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں   کوئی حق  و حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتا،  تاہم اگر صاحبِ جائیداد اپنی  زندگی میں  اپنی جائیداد  خوشی  ورضا سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنهما کی  روایت میں ہے:

'' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه»"

(مشکاۃ  المصابیح،كتاب البيوع، باب،الفصل الأول،ج:2،ص:909، ط: المكتب الإسلامي، بيروت)

ترجمہ:"حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو"

چناں چہ آپ کے والد صاحب کے لیے اپنی زندگی میں ہی   جائیداد  تقسیم کرنے  کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنی جائیداد میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ  جائیداد  کا آٹھواں حصہ اپنی دونوں بیویوں کے درمیان نصف نصف تقسیم کردے ، اور باقی ماندہ جائیداد   اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی، البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت  ودین داری یا غریب ہونے کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے۔

نیز یہ واضح رہے کہ ہر ایک کو اس کا حصہ مکمل مالکانہ حقوق و اختیارات کے ساتھ دے، ورنہ ہبہ مکمل نہ ہوگا اور وہ جائیداد بدستور والد ہی کی ملکیت میں رہے گا۔

"بدائع الصنائع"میں ہے:

"وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في ‌النحلى لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 90] .

(وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض.

وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي - عليه الصلاة والسلام - فأرجعه وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لا حق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلا سواء كان المحروم فقيها تقيا أو جاهلا فاسقا على قول المتقدمين من مشايخنا وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة."

(كتاب الهبة، فصل في شرائط ركن الهبة، ج:6، ص:127، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100175

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں