بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں حصہ دے کر وفات کے بعد حصہ نہ دینے کا معاہدہ کرنا، والدین سے قطع تعلق کرنے کا گناہ


سوال

1) میرے دو بیٹے ، ایک بیٹی اور اہلیہ ہیں، میں نے حال ہی میں ایک پراپرٹی بیچی ہے جو کہ تین کروڑ پینتیس لاکھ (33500000)روپے  کی تھی، اسی رقم میں سے میں اپنے ذاتی اخراجات کے لیے ایک کروڑ روپے رکھنا چاہتا ہوں اور بقایا دو کڑور  پینتیس لاکھ روپے اپنی اولاد اور اہلیہ کو اپنی حیاتی میں تقسیم کرنا چاہتا ہوں تو شرعی طور پر دو بیٹوں ، ایک بیٹی اور اہلیہ کو کتنی کتنی رقم ملے گی؟

2) میرا ایک بیٹا بضد ہے کہ  میرا جو  حصہ بنتا ہے وہ مجھے دے دو، جب کہ اہلیہ، ایک بیٹا اور بیٹی یہ کہتے ہیں کہ ابھی ہمیں ضرورت نہیں، بعد میں جب ضرورت ہو گی تو لیں گے، لیکن مذکورہ بیٹا  یہ  ضد کرتا ہے کہ مجھے میرا حصہ دے دو، اب اگر میں اپنے مذکورہ بیٹے کو اس کا حصہ دینا چاہوں اور میرا مذکورہ بیٹا اپنا حصہ وصول کرنا چاہے تو ایسی صورت میں میرا اور اس بیٹے کا ایسا تحریری معاہدہ کرنا کیا درست ہوگا کہ کل والدین کی زندگی میں یا فوت ہو جانے کے بعد مذکورہ بیٹا باقی بھائی بہن اور والدہ سےکسی اور رقم کا دعویٰ نہیں کرے گا اور یہی حصہ اور رقم اس کا اصل میراث میں سے حصہ ہے؟

3) مذکورہ بیٹے  نے پچھلے تقریباً ایک سال سے مجھ سے، بہن، بھائی اور والدہ سے مکمل قطع تعلق کر رکھا ہے،  فون پر بھی بات نہ خود کرتا ہےاور نہ ہی اپنے بچوں کو بات کرنے دیتا ہے، کوششوں کے باوجود مذکورہ بیٹا ہم سے تعلقات نہیں رکھنا چاہتا، بیٹے نے جو قطع تعلق کیاہے اس کا کیا حکم ہے؟ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے قریب آجائے۔

جواب

1) واضح رہے کہ زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرنا شرعاً ہبہ اور تحفہ کہلاتا ہے اور ہبہ کا اصول یہ ہے کہ اولاد میں سے ہر ایک کو خواہ بیٹا ہو یا بیٹی برابر حصہ دیا جائےکسی کے حصے میں بلا وجہ کمی زیادتی نہ کی جائے، لہذا صورتِ مسئولہ میں دو کڑور  پینتیس لاکھ روپے ( 23500000) روپے کا آٹھواں حصہ یعنی 2937500 روپے سائل اپنی  بیوی  کو دے دے اور 6854166.67 روپے اولاد میں سے ہر ایک کو دےدے۔

2) سائل اپنی جائیداد کا مالک ہے اس کی زندگی میں اس کی اولاد کا اس کی جائیداد میں کوئی حق و حصہ نہیں، لہذا سائل کے مذکورہ بیٹے کا یہ مطالبہ کرنادرست نہیں کہ سائل اپنی جائیداد اپنی زندگی میں اولاد درمیان تقسیم کرے، لیکن اس کے باوجود سائل کا اپنے بیٹے کے ساتھ یہ معاہدہ کرنا جائز ہے  کہ زندگی میں اس کو  ملنے والا حصہ اس کی میراث شمار ہوگا، اگر بیٹے نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ اس کو زندگی میں حصہ مل جانے کے بعد والدین کی وفات کے بعد  اس کا میراث میں حصہ نہیں لوں گا، تو بیٹا بعد میں مطالبہ کا حق دار نہ ہوگا، لیکن سائل کے لیے یہ بات مناسب نہیں کہ مذکورہ بیٹے کو دیا جانے والا حصہ اس کی میراث میں سے قرار دے اور بقیہ اولاد کو دی جانے والی رقم میراث میں سے قرار نہ دے، اس سلسلے میں اولاد کے ساتھ برابری والا معاملہ کرے۔

3) قطع تعلق کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور اگر کوئی شخص اپنے والدین ہی سے قطع تعلق کرلے تو اس گناہ کی شناعت مزید بڑھ جاتی ہے، صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے  کہ رحم(یعنی رشتہ داری) کا تعلق رحمن سے جڑا ہوا ہے،اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ پس جو تجھے جوڑے گا ( یعنی صلہ رحمی کرے گا) میں بھی اس کو اپنے سے جوڑ لوں گا اور جو کوئی تجھے توڑے گا(یعنی قطع رحمی کرے گا)  میں بھی اپنے آپ کو اس سے توڑ لوں گا، ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رشتے ناتے توڑنے والا جنت نہیں نہیں جائےگا، لہذا مذکورہ بیٹے پر لازم ہے کہ فوراً والدین اور بہن بھائی سے رابطہ بحال کرے اور ان کی خوب خدمت کر کے اپنی آخرت کو سنوارے،سنن ترمذی میں حضرت ابو الدرداء رضی اللہ وعنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:باپ جنت کا بہترین دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو ، ترمذی ہی کی ایک اور روایت ہے کہ  رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے ، والدین  اور بھائی بہن کو بھی چاہیے کہ اس بیٹے کی اگر کوئی ناراضگی کی کوئی جائز وجہ ہو تو اس کو دور کریں۔

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا يحيى بن بكير: حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب: أن محمد بن جبير بن مطعم قال: إن جبير بن مطعم أخبره:أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: (لا يدخل ‌الجنة ‌قاطع)»".

(كتاب الأدب، ‌‌باب إثم القاطع،8  /6، ط: المطبعة الكبرى الأميرية)

وفیہ ایضاً:

"حدثنا ‌خالد بن مخلد: حدثنا ‌سليمان: حدثنا ‌عبد الله بن دينار، عن ‌أبي صالح، عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن الرحم شجنة من الرحمن، فقال الله: من وصلك وصلته ومن قطعك قطعته»".

(أيضاً، باب: من وصل وصله الله، 8/ 6 )

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا ‌أبو بكر بن أبي شيبة ‌وزهير بن حرب واللفظ لأبي بكر قالا: حدثنا ‌وكيع ، عن ‌معاوية بن أبي مزرد ، عن ‌يزيد بن رومان ، عن ‌عروة ، عن ‌عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الرحم ‌معلقة بالعرش تقول: من وصلني وصله الله، ومن قطعني قطعه الله»".

(‌‌‌‌كتاب البر والصلة والآداب، باب صلة الرحم، وتحريم قطيعتها، 8/ 7 ط: دار الطباعة العامرة)

سنن ترمذی میں ہے

"حدثنا أبو حفص عمرو بن علي قال: حدثنا خالد بن الحارث قال: حدثنا شعبة، عن يعلى بن عطاء، عن أبيه، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «رضى الرب في رضى الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد»".

(‌‌أبواب البر والصلة، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين، 4/ 310 ط: مطبعة مصطفى البابي الحلبي)

وفیہ ایضاً:

"حدثنا ابن أبي عمر قال: حدثنا سفيان بن عيينة، عن عطاء بن السائب، عن أبي عبد الرحمن السلمي، عن أبي الدرداء، أن رجلا أتاه فقال: إن لي امرأة وإن أمي تأمرني بطلاقها، قال أبو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «الوالد أوسط أبواب الجنة، فإن شئت فأضع ذلك الباب أو احفظه»".

(4/ 311، أيضاً)

حاشیۃ ابن عابدین  میں ہے:

"قال القهستاني: واعلم أن ‌الناطفي ذكر ‌عن ‌بعض أشياخه أن المريض إذا عين لواحد من الورثة شيئا كالدار على أن لا يكون له في سائر التركة حق يجوز، وقيل هذا إذا رضي ذلك الوارث به بعد موته فحينئذ يكون تعيين الميت كتعيين باقي الورثة معه كما في الجواهر اهـ. قلت: وحكى القولين في جامع الفصولين فقال: قيل جاز وبه أفتى بعضهم وقيل لا اهـ".

(‌‌كتاب الوصايا6/ 655، ط:سعید)

جامع الفصولین میں ہے:

"(جف) جعل لأحد بنيه دارا بنصيبه على أن تكون له بعد موت الأب ميراثا قيل: جاز وبه أفتى بعضهم وقيل: لا".

(الفصل الرابع والثلاثون في الأحكامات، باب الوصية،2/ 190، ط : اسلامي كتب خانة)

یوسف بن علی الجرجانی ( متوفی بعد 522 ہجری)اپنی کتاب خزانۃ الاکمل میں تحریر کرتے ہیں:

"قال الشيخ أبو العباس الناطفي رأيت بخط بعض مشايخنا فى رجل جعل لأحد بنيه دارا بنصيبه على أن لا يكون له بعد موت الأب ميراث جاز وأفتى به الفقيه أبو جعفر محمد بن اليمان أحد أصحاب محمد بن شجاع البلخي".

(كتاب الوصايا، من فتاوی الناطفي 4/ 589، ط:دار الکتب العلمية)

فتاوی قاضی خان میں ہے:

"ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى".

(کتاب الهبة، فصل في هبة الوالد لولده، 3/150، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144306100488

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں