بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں ہبہ شدہ زمین پر وراثت کا دعوی کرنا


سوال

 میرے والد مرحوم کے قبضے میں شاملات کی زمین تھی،ہم دو بھائی اور 4 بہنیں ہیں ،والد صاحب نے زندگی میں شاملات کی زمین ہم دو بھائیوں میں برابر تقسیم کی تھی،ہم دونوں نے اس شاملات کی زمین پر گھر تعمیر کئے ہیں، اب یہ بتایا جائے کہ اگر 35 سال بعد کوئی بہن حصہ مانگیں تو کیا وہ حق پر ہے؟ اگر ان کا حصہ بنتا ہے تو کیسے دیا جائے جبکہ ان پر تعمیرات ہوچکی ہیں،اس سے پہلے بہن نے نہ تو حصہ مانگا تھا اور نہ کوئی اعتراض کیا تھا، دوسرا سوال: اگر والد اپنی زندگی میں اپنا گھر دو بیٹوں کے درمیان ایسا تقسیم کر لیں کہ انیس بیس کا فرق ہو، اس کے بعد گھر کا نقشہ تعمیرات کی وجہ سے مکمل تبدیل ہو جائے، تو کیا ایک بھائی جس کے پاس تھوڑا کم ایریا ہو ، اپنا پورا حصہ مانگ سکتا ہے؟ جبکہ والد نے خود تقسیم کی ہو؟ 

جواب

1۔ زندگی میں اگر کوئی شخص اپنا  مال /جائداد اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتا ہو تو شریعت کی رو سے یہ  تقسیم ِمیراث کے زمرے میں نہیں آئے گا بلکہ یہ والد کی طرف سے  اولاد کے لیے ہدیہ کے حکم میں  ہوگا، زندگی میں اپنا مال تقسیم کرنے  کا صحیح طریقہ  یہ ہے کہ تمام  اولاد کو برابر حصہ دیا جائے  ، جتنا حصہ بیٹوں کو دیاجائے  اتنا ہی بیٹیوں کو بھی دیا جائے ۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد  نے اپنی زندگی میں جو  زمین دوبیٹوں کے درمیان مالکانہ طور پر برابر تقسیم کی تھی اور دونوں کا حصہ متعین کرکے ہر ایک کو اپنے اپنے حصے پر قبضہ وتصرف دیا تھا،والد کی عملداری نہ تھی، وہ ہبہ (گفٹ) تھا، دونوں بیٹۓوالد کی زندگی ہی میں اس زمین کے مالک بن گئے تھے، ہبہ کرنے کے بعد وہ زمین اب سائل کے والد  کی ملکیت نہ رہی تھی، لہذا سائل کی بہن کو اس زمین سے حصہ مانگنے کا حق  نہیں، لیکن چونکہ والد کی یہ تقسیم غیر منصفانہ تھی ، جس پر آخرت میں والد کا مؤاخذہ ہوسکتا ہےاس لئے اگر بیٹے اپنے والد کی غلطی کی اصلاح کرتے ہوئےاپنی بہنوں کو حصہ دیکر ان کو راضی کریں تو یہ اپنی بہنوں کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ ساتھ والدِ مرحوم کے ساتھ بھی خیرخواہی ہوگی۔

2۔صورتِ مسئولہ میں  والد  نے ا پنی زندگی میں اپنا گھر اپنے دو بیٹوں کے درمیان اگر ایسا تقسیم کر لیا کہ معمولی سافرق تھا  اورہر ایک بیٹے کو اپنے اپنے حصہ پر قبضہ وتصرف دے دیا تھا، والد کا اس پر قبضہ وتصرف نہ تھا تو ہر بیٹا اپنے اپنے حصے کا مالک بن چکا، اب ایک بھائی کو دوسرے کی رضامندی کے بغیر اس میں تبدیلی کا حق نہیں،تاہم اگر دونوں بھائی آپس میں سمجھوتا کرنا چاہیں تو یہ صورت بہتر ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى  أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف  رحمه الله تعالى  أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى."

(کتاب الھبۃ،ج:4،ص:391،ط: دار الفکر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101742

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں