بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹی کے لیے وصیت کرنا


سوال

ہم لوگ 6 بھائی اور 2 بہنیں ہیں، ہم لوگوں کا ایک بھائی 2010 میں الگ ہوا، اس وقت ایک بھائی کا حصہ 55 لاکھ تھا، اس بھائی کے علیحدہ ہونے کے بعد والد صاحب نے کہا کہ یہ 2 دکانیں دو بہنوں کی ہیں، میری موت کے بعد ان کو دے دینا، اس وقت ان دو دکانوں کی قیمت بہنوں کے حق سے زیادہ تھی، اس کے بعد والد کی زندگی میں ایک بہن کی وفات ہوئی، اور دوسری زندہ ہے، اب والد صاحب بھی فوت ہوگئے، ابھی اس بہن کے لیے کیا حکم ہے جو والد کی زندگی میں فوت ہوئی؟ اور جو ابھی زندہ ہے اس کے لیے کیا حکم ہے کہ ان کو پورا پورا حق دیا جائے؟ یا پھر وہی جو والد صاحب نے نشان دہی کی ہے وہ دکان دے دی جائے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کے والد صاحب نے اپنی بیٹیوں کو دکان دینے کے لیے جو الفاظ استعمال کیے وہ شرعًا وصیت ہے، اور بیٹیاں شرعی وارث ہیں، اور وصیت ورثاء کے حق میں ہو تو اس کا نفاذ دیگر ورثاء کی رضامندی پر موقوف رہتا ہے، اگر وہ اجازت دے دیں تو وصیت قابلِ عمل ٹھہرتی ہے، ورنہ کالعدم ہو جاتی ہے؛ اس لیے مذکورہ وصیت اب بالغ ورثاء کی رضامندی پر موقوف ہے کہ چاہیں دونوں دکانیں یا دونوں کا آدھا اس بہن کو دے دیں، بصورتِ دیگر وراثت میں اس کا جو حق بنتا ہے وہ اسے سپرد کردیں۔ اور جس بہن کا والد کی زندگی میں انتقال ہوگیا اس کی اولاد اب حق دار نہیں ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200949

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں