بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں بیٹیوں کے درمیان جائیداد تقسیم کرنا


سوال

کسی آدمی کی اولاد نرینہ نہ ہو  اور اپنی پراپرٹی اپنے فوت ہونے سے پہلے بیٹیوں کے نام پر ٹرانسفر کر دے تو کیا شرعی لحاظ سے جائز ہے؟

 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر بیٹیوں کے علاوہ بھی مذکورہ شخص کے ایسے رشتہ دار ہوں جو اس کے وارث بن سکتے ہوں تو مکمل جائیداد بیٹیوں میں تقسیم کرنا مکروہ ہے؛ کیوں کہ اس صورت میں بیٹیوں کے علاوہ سائل کے جو دیگر ورثاء ہیں مثلًا: والد، بھائی یا بھتیجے وغیرہ محروم ہوجائیں گے اور ہر وہ تدبیر جو شرعی ورثاء کو محروم کرے شرعًا مکروہ ہے؛ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ  مذکورہ شخص زندگی میں بھی میراث کے شرعی اصول کے مطابق اپنی جائیداد تقسیم کردے۔

الفتاوى الهندية میں ہے:

"(الباب السادس في الهبة للصغير)  ولو وهب رجل شيئًا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن، وعليه الفتوى، هكذا في فتاوى قاضي خان. وهو المختار، كذا في الظهيرية.

(کتاب الهبة، الباب السادس، ج نمبر ۴ ص نمبر ۳۹۱،دار الفکر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201201060

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں