والد صاحب کے کاروبار کو ہم چند بھائیوں نے کافی بڑھایا ہے اور اب اسے باہمی رضامندی سے زندگی میں ہی تقسیم کرنے کا ارادہ ہے، ہم بھائی بہن اور والد والدہ سب بیٹھ کر مشورے سے جائیداد سے متعلق طے کرنا چاہتے ہیں،کیا اس میں میرے لیے یہ رائے دینا جائز ہے کہ جتنا کار و بار والد صاحب کے زمانے میں تھا بہنوں میں اور والدہ میں اس کے اعتبار سے تقسیم ہو اور اسی میں سے والد صاحب اپنے لیے باقی رکھنا چاہیں تو رکھیں اور جو کاروبار بھائیوں نے بڑھایا ہے وہ بھائیوں کے درمیان ہی تقسیم ہو۔
میں نے خود مشورے میں یہ بات رکھ لی ہے اور اس پر تمام گھر والے بھی راضی ہو گئے ہیں،کیا ان کی یہ رضامندی معتبر سمجھی جائے گی اور کیا میرا اس طرح مشورہ دینا درست ہے ؟ اگر درست نہیں ہے تو کوئی متبادل تجویز فرمائیں،والد ، والدہ ، بہنیں اور ہم بھائی ہر صورت پر راضی ہیں،بس ہم شریعت کا حکم جاننا چاہتے ہیں۔ راہ نمائی فرما کر مشکور و ممنون فرمائیں۔
ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک ہوتا ہے اور ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، نیز اگر صاحبِ جائیداد اپنی زندگی میں اپنی جائیداد خوش دلی سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو ا س کا بھی اختیار ہے، اور اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا ہبہ (گفٹ) کہلاتا ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ حدیث شریف میں ہے:
"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم."
(مشکاۃ المصابیح، ج:1، ص:261، ط: قدیمی)
”حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا : ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ …… آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔“
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر والد صاحب زور زبردستی کے بغیر اپنا کاروبار اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہیں تو ان کو اختیار ہے، وہ اپنے لیے بقدر ضرورت حصہ رکھ کر، بیوی کے لیے آٹھواں حصہ متعین کرکے اس کو دے دیں پھر بقیہ کاروبار کو اولاد میں تقسیم کرسکتے ہیں، نیز بہتر یہ ہے کہ تمام اولاد کو برابر حصہ دیا جائے، تاہم اگر اس بنیاد پر بیٹوں کو زیادہ حصہ دیا جارہا ہے کہ انہوں نے کاروبار کو فروغ دینے میں معاونت کی تھی تو درست ہوگا، لیکن اگر اس بنیاد پر بیٹوں کو زیادہ حصہ دینا کہ بیٹیوں کو کم ملے، تو یہ جائز نہیں ہوگا۔
چناں چہ اگر سائل کے اس مشورہ کو والد،والدہ سب بہن ،بھائی نے بلا جبر و اکراہ، خوش دلی سے قبول کرلیا ہے، تو یہ رائے درست ہے، اس پر عمل درآمد کیا جاسکتا ہے۔
یہ واضح رہے کہ ہر ایک کا حصہ اس کو دے کر مالک بنانا ضروری ہے صرف نام کردینے سے ہبہ (گفٹ) مکمل نہیں ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى."
(کتاب الوقف، ج:4، ص:444، ط:دار الفکر)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية."
(كتاب الهبة، الباب السادس في الهبة للصغير، ج:4، ص:391، ط: دار الفكر)
شرح مختصر الطحاوي للجصاص ميں ہے:
"وهذا أيضا يدل على التسوية، لأنه قال: هل لك ولد غيره؟ ولم يسأله عن الذكر والأنثى منهم، وأوجب أن يساوي بينهم في العطايا.
ويدل عليه أيضا: ما روى في بعض ألفاظ حديث النعمان بن بشير حين قال: أشهد على هذا غيري، ثم قال:"أيسرك أن يكونوا لك في البر سواء؟ قال: بلى. قال: فلا إذا. ومعلوم أن محبته لمساواتهم في البر، لا تختص بالذكر دون الأنثى، وكذلك فيما يعطيهم.
ويدل عليه: ما حدثنا عبد الباقي بن قانع قال: حدثنا الحسن بن علي بن محمد بن سليمان القطان قال: حدثنا عباد بن موسى قال: حدثنا إسماعيل بن عياش قال: حدثنا سعيد بن يوسف الرحبي عن يحيى بن أبي كثير اليمامي عن عكرمة عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ساووا بين أولادكم في العطية، فلو كنت مفضلًا لفضلت البنات، فلم يفرق بين الذكور والإناث حين أمر بالمساواة بينهم. وقوله: ولو كنت مفضلا لفضلت البنات: يدل على التسوية أيضًا."
(كتاب العطايا، أحکام الھبة، ج:4، ص:25، ط: دار البشائر الإسلامیة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607100344
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن