بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں اپنے مال کی وصیت کرنا


سوال

 کافی عرصہ پہلے میرے بڑے بھائی کا انتقال ہو گیا تھا، ان کے دو بچے تھے، ایک لڑکا اور ایک لڑکی، دونوں کی پرورش میں نے کی ہے ،اور میرے بھی ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ہیں ، سوال یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ میری وفات کے بعد میرے بھتیجے اور بھتیجی کو میرے مال میں سے کم سے کم دو دو لاکھ روپے دونوں کو ملیں، اور میرے لڑکے اور دونوں لڑکیوں اور میری اہلیہ کو بھی شریعت  کے مطابق ملیں ،اور میں کچھ اپنے مال میں وصیت بھی کرنا چاہتا ہوں (جو میں اپنی زندگی میں راہ خدا میں خرچ کرتا ہوں ) ،تاکہ یہ سلسلہ میری وفات کے بعد جاری رہے ،میرے پاس ایک 50گز کا دھلی میں مکان ہے، جس کی قیمت اس وقت تقریباً 60 لاکھ ہے ،ان تمام لوگوں کے درمیان یہ رقم شریعت کے مطابق کیسے تقسیم ہوگی ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کی خواہش یہ ہے کہ اس کے انتقال کے بعد اس کے بھتیجا اور بھتیجی کو اس کے ترکہ سے ایک معقول رقم ملے ،اور باقی اس کے شرعی ورثاء یعنی اس کی اہلیہ اور بیٹا اور دونوں بیٹیوں میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہو،تواس صورت میں اگر بھتیجے اور بھتیجی کے لیے دو دو لاکھ روپے کی وصیت کرنا چاہے ،اس کے علاوہ کچھ صدقہ خیرات کی وصیت کرنا چاہے ،تو شرعاً سائل کو اس کا اختیار ہے کہ مذکورہ وصیت کل جائیداد کے ایک تہائی (1/3)کے اندر کردے ،اس صورت میں قرض وغیرہ کی ادائیگی اور ایک تہائی ترکہ میں وصیت نافذ کرنے کے بعد باقی ترکہ تمام ورثاء میں شرعی حساب سے تقسیم ہوگا۔

وراثت کا حکم چوں کہ مورث کے انتقال کے بعد ہوتا ہے ،لہذا سائل اپنی زندگی میں اپنے مال میں مکمل طور پر خود مختارہے  ،لہذا اگر وہ زندگی میں راہ خدامیں خرچ کرکے اپنے لیے صدقہ جاریہ کرنا چاہتا ہے ،تو اس کو اجازت ہے کہ وہ اپنے مال کا ایک حصہ اللہ کے راستہ میں خرچ کردے ،اسی طرح  کسی وارث یا غیر وارث کوزندگی میں  کچھ دینا چاہتا ہے ،تو بطور ہبہ (گفٹ ) کے دے دے ،البتہ زندگی میں گفٹ کرتے ہوئے اولاد میں برابری کرنا شرعاً ضروری ہے ،تاکہ کسی ایک کی حق تلفی نہ ہو،بلاوجہ تفریق کرنے والا گناہ گار ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية."

(کتاب الوصایا،الباب الاول فی تفسیر الوصیة،ج:6،ص:90،دارالفکر)

فتح القدیر میں ہے:

"ثم تصح للأجنبي في الثلث من غير إجازة الورثة لما روينا...قال (ولا تجوز) (بما زاد على الثلث) لقول النبي - عليه الصلاة والسلام - في حديث سعد بن أبي وقاص - رضي الله عنه - «الثلث والثلث كثير» بعد ما نفى وصيته  بالكل والنصف، ولأنه حق الورثة، وهذا لأنه انعقد سبب الزوال إليهم وهو استغناؤه عن المال فأوجب تعلق حقهم به، إلا أن الشرع لم يظهره في حق الأجانب بقدر الثلث ليتدارك مصيره على ما بيناه، وأظهره في حق الورثة لأن الظاهر أنه لا يتصدق به عليهم تحرزا عما يتفق من الإيثار على ما نبينه، وقد جاء في الحديث «الحيف في الوصية من أكبر الكبائر» وفسروه بالزيادة على الثلث وبالوصية للوارث قال (إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار) لأن الامتناع لحقهم وهم أسقطوه (ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته) لأنها قبل ثبوت الحق إذ الحق يثبت عند الموت."

(كتاب الوصايا، ج:10، ص:416، ط:بولاق مصر)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»".

(كتاب البیوع، باب العطایا،ج:2،ص:909،رقم:3019، ط:المكتب الإسلامي )

فتاوی شامی میں ہے:

"متى وقف حال صحته وقال على الفريضة الشرعية قسم على ذكورهم وإناثهم بالسوية هو المختار المنقول عن الأخبار كما حققه مفتي دمشق يحيى ابن المنقار في الرسالة المرضية على الفريضة الشرعية."

(کتاب الوقف،ج:4،ص:444،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى."

(کتاب الھبة،ج:5،ص:696،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102972

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں