بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں اپنا گھر دینی وفلاحی ادارہ کو وقف کرنے کا حکم


سوال

میری عمر تقریبا 83 سال ہے، میں نے اور  میری اہلیہ نے اپنے موجودہ مکان  جس میں ہم اس وقت رہائش پذیر ہیں کے بارے میں سوچا ہے کہ یہ کسی فلاحی ادارے کو فی سبیل اللہ دے دیں، تاکہ یہ آخرت میں ہمارے لئے بخشش اور اجر کا باعث بنے ، ہمارے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں سب کی شادیاں ہو گئی ہیں، اور پاکستان سے باہر اپنے اپنے گھروں میں رہائش پذیر ہیں، ان سب کی مالی حیثیت اچھی ہے۔ان کی عمریں 47   سے 53 سال کے درمیان ہے۔

ہماری کل جائیداد ( دو پلاٹ، بینک اکاؤنٹ،  زیورات اور موجودہ مکان) کی مالیت  تقریبا آٹھ کروڑ روپے بنتی ہے۔

مجھے معلوم یہ  کرنا ہے کہ کیا میں اپنی زندگی میں اس مکان کو فی سبیل اللہ کسی دینی وفلاحی ادارے کو دے سکتا ہوں یا نہیں؟ اگر دے سکتا ہوں، تو اس کے لئے مجھے اپنے بچوں سے تحریری اجازت کی ضرورت ہوگی یا نہیں ؟

اگر میں نہیں کر سکتا تو پھر صدقہ جاریہ کی کوئی اور صورت ممکن ہو وہ بتا دیں۔ 

نوٹ: اولاد نے ابھی اجازت دے دی ہے کہ جہاں چاہیں دے سکتے ہیں، تو کیا اب مذکورہ گھر کسی دینی وفلاحی ادارے کو  ہم دے سکتے ہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل اور اس کی اہلیہ اگر اپنی زندگی میں ہی اپنا گھر اللہ کی راہ میں کسی دینی وفلاحی  ادارہ کو دےدیتے ہیں،   اور یہ مذکورہ گھر ان کے کل اثاثہ جات کا ایک تہائی یا اس سے کم ہو  تو  اولاد میں سے کسی کو ان پر اعتراض  کا حق نہیں ہوگا، اور نہ ہی اولاد سے زبانی یا تحریری اجازت لینا ضروری ہے، البتہ اگر مذکورہ گھر ان کے کل اثاثہ جات کے ایک تہائی سے زائد مالیت کا ہو، تو پھر ایک تہائی سے زائد وقف کرنے یا وصیت کرنے کے لئے ورثاء کی اجازت ضروری ہے،  اگر اجازت لے کر کرے تو پھر جائز ہے، بلا اجازت  ایسا کرنا اولاد کی ممکنہ حق تلفی کی وجہ سے جائز نہیں،  بہرحال جب اولاد نے اجازت دے دی ہےتو سائل کا اپنا پورا مکان فی سبیل اللہ وقف کرنا جائز ہے، اور باعث اجر ہے، باقی اجازت زبانی ہو یا تحریری ہو دونوں دیانۃً درست ہیں، تاہم تحریری اجازت زیادہ بہتر ہے ۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"المادة (١١٩٢) - (كل يتصرف في ملكه كيفما شاء. لكن إذا تعلق حق الغير به فيمنع المالك من تصرفه على وجه الاستقلال. مثلًا: الأبنية التي فوقانيها ملك لأحد وتحتانيها لآخر فبما أن لصاحب الفوقاني حق القرار في التحتاني ولصاحب التحتاني حق السقف في الفوقاني أي حق التستر والتحفظ من الشمس والمطر فليس لأحدهما أن يعمل عملًا مضرًّا بالآخر بدون إذنه ولا أن يهدم بناء نفسه).

كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير."

( الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالحيطان والجيران، الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك،٣ / ٢٠١، ط: دار الجيل)

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي میں ہے:

"ثم تصح الوصية للأجنبي بالثلث من غير إجازة الوارث، و لاتجوز بما زاد على الثلث لما روي عن سعد بن أبي وقاص - رضي الله عنه - أنه قال «جاءني رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يعودني من وجع اشتد بي فقلت يا رسول الله قد بلغ بي من الوجع ما ترى وأنا ذو مال ولا يرثني إلا ابنة لي أفأتصدق بثلثي مالي قال لا قلت فالشطر يا رسول الله قال لا قلت فالثلث قال الثلث والثلث كثير أو كبير إنك إن تذر ورثتك أغنياء خير لك من أن تدعهم عالة يتكففون الناس»، ولأن حق الورثة تعلق بماله لانعقاد سبب الزوال إليهم وهو استغناؤه عن المال إلا أن الشرع لم يظهره في حق الأجانب بقدر الثلث ليتدارك تقصيره وأظهره في حق الورثة؛ لأن الظاهر أنه لا يتصدق به عليهم تحرزا عما يتفق لهم من التأذي بالإيثار وقد جاء في الحديث أنه - عليه الصلاة والسلام - قال «الحيف في الوصية من أكبر الكبائر» وفسروه بالزيادة على الثلث وبالوصية للورثة."

(كتاب الوصايا، ٦ / ١٨٢، ط: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"وحاصله: أنه لا تنبغي الوصية بتمام الثلث بل المستحب التنقيص عنه مطلقا لأنه - عليه الصلاة والسلام - قد استكثر الثلث بقوله «والثلث كثير» لكن التنقيص عند فقر الورثة وإن كان مستحبا إلا أن ثمة ما هو أولى منه، وهو الترك أصلا فإن المستحب تتفاوت درجاته، وكذا المسنون والمكروه وغيرهما، وبهذا ظهر لك أن إتيان الشارح المحقق بلو الوصلية موافق للهداية فافهم هذا وفي القهستاني: إذا كان المال قليلا لا ينبغي أن يوصى على ما قال أبو حنيفة: وهذا إذا كان الأولاد كبارا فلو صغارا فالترك أفضل مطلقها على ما روي عن الشيخين كما في قاضي خان اهـ. فالتفصيل إنما هو في الكبار أما الصغار فترك المال لهم أفضل ولو كانوا أغنياء."

(كتاب الوصايا، ٦ / ٦٥٢، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144601101982

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں