بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں ایک بیٹی کو حصہ دے کر میراث سے محروم کرنا


سوال

ہم تین بھائی بہن  ہیں، دو بھائی اور ایک بہن ہے اور  ہمارا گھر ہماری والدہ کا ہے اور ان ہی  کے نام ہے۔ والدہ نے کہا ہے ان کے بعد یہ گھر دونوں بھائیوں کا ہوگا اور بہن کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔ بہن کو انہوں نے یہ بات بتائی ہوئی ہے اور اس کو الگ سے کچھ پیسے بھی دے دیے ہیں ۔ پوچھنا یہ ہے کیا یہ طریقہ شرعی طور پر صحیح ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ اگر کوئی  مورث  (جس کا  ورثہ تقسیم ہوگا) یہ چاہتا ہو کہ اس کے ورثہ میں سے بعض وارثوں کو وہ زندگی میں کچھ دے دے اور اس کے مرنے کے بعد اس کے دیگر ورثاء کو حصہ ملے اور اس وارث کو حصہ نہ ملے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندگی میں حصہ دیتے وقت اس وارث کو یہ کہے کہ میں آپ کو اتنا اتنا زندگی میں دے رہا ہوں اور مرنے کے بعد آپ کو کچھ نہیں ملے گا اور سامنے سے وہ وارث قبول بھی کرے؛  لہذا صورتِ  مسئولہ میں والدہ نے  بہن کو جو تھوڑا بہت دیا ہے  اگر وہ دیتے وقت یہ کہا تھا کہ یہ تمہارا حصہ ہے اور میرے مرنے کے بعد ورثہ میں تمھارا کچھ حصہ نہیں ہوگا اور بہن نے  یہ  قبول بھی کرلیا تو  والدہ کے انتقال کے بعد مذکورہ بہن کو والدہ کے جائیداد (گھر) میں سے کچھ نہیں ملے گا اور یہ گھر دونوں بھائیوں کے درمیان آدھا آدھا تقسیم ہوگا۔اور اگر والدہ نے بہن کو دیتے وقت یہ بات (کہ  یہ تمھارا حصہ ہوا اور میرے مرنے کےبعد تمہیں کچھ نہیں ملے گا) نہیں کہی،  صرف اس کو وہ تھوڑا بہت حوالہ کردیا اور پھر بعد میں زبانی کہہ دیا کہ اب بہن کا کوئی حصہ نہیں  تو پھر شرعًا والدہ کے انتقال کے بعد مذکورہ بہن بھی اس گھر میں حق دار ہوگی۔ اس گھر کے پانچ حصہ کیے جائیں گے،  اس میں سے ہر بھائی کو دو حصے ملیں گے اور بہن کو ایک حصہ ملے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200823

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں