بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں اولادکے درمیان جائیداد تقسیم کرنے کا حکم/ ہبہ کے مکمل ہونے کے شرائط


سوال

 ہم چار بھائی اور ایک بہن ہیں،  والدہ فوت ہو چکی  ہیں جب کہ والدِ محترم  الحمد لله    حیات  ہے، سب بہن بھائیوں میں دو بھائی مالی طور پر کمزور ہیں، چند سال پہلے  والد صاحب نے اپنا ذاتی گھر رقبہ 10 مرلہ  دو چھوٹے بیٹوں کی کمزور مالی حالت کی وجہ سے اُن کو ہبہ کرنے کا ارادہ کیا، مگر اس سے پہلے ہم دو بھائیوں اور ایک بہن سے فرداً فرداً ذکر کرکے حسب خواہش ہبہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، ہم تینوں (دو بڑے بھائی  اور بہن ) نے دوسرے دو بھائیوں کے حق میں دستبرداری پر  رضامندی دے دی، نتیجۃً  والد صاحب نے وہ مکان دو برابر حصوں میں تقسیم کر نے کے بعد دو بیٹوں کو ہبہ اور تملیک کر دیا، اور ساتھ ہی ہدایت کی کہ جب بھی وہ ہبہ کیا گیا اپنا حصہ کسی وقت فروخت کریں تو اس میں سے کچھ حصہ (غیر متعین) اپنی بہن کو بھی دیں، یہ بات بہن کے علم کے بغیر تھی، اسی دوران چند وجوہات کی بنا پر ایک چھوٹے بھائی اور بہن کے خاندان  کے درمیان ناچاقی پیدا ہو گئی ، بعد ازاں اس چھوٹے بھائی نے اپنا حصہ بیچ دیا جسے بہن سے پوشیدہ رکھا، مگر جب بہن کو گھر فروخت ہونے کا علم ہوا تو اس نے بھائی سے اپنےحصّے کے لئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا، والد صاحب سے بھی اپنے حصہ کا تقاضا کیا، جس پر والد صاحب نے ہبہ وصول کرنے والے دونوں بیٹوں کو باقاعدہ بلا کر بہن کو کوئی حصہ دینے سے قطعی منع کر دیا، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ انکی بیٹی شادی کے بعد وقتاً فوقتاً بہت کچھ اپنے حق سے زیادہ لے چکی ہے،جبکہ بہن٫ ایک بھائی سے اپنا حصّہ لینے پر مصر ہے جبکہ دوسرے بھائی کو باہمی تعلقات اچھے ہونے کی وجہ سے کہا ہے کہ وہ فکرمند نہ ہو، اُس سے  تقاضا نہیں کیا جائے گا، اس کے علاوہ والد صاحب نے بیٹوں کو بیٹی کے سسرال کے شر سے بچانے کیلیئے عدالت میں جا کر باقاعدہ بیان دیا کہ انہوں نے اپنا گھر دو چھوٹے بیٹوں کو برابر بانٹ دیا ہے، اس وقت والد صاحب کی عمر تقریباً 92 سال ہے،صحت بھی اچھی نہیں، ہر وقت فکرمند رہتے ہیں کہ بیٹی کو جائیداد سے محروم کر کے اُن سے گناہ تو سرزد نہیں ہو گیا، اگر ایسا ہے تو اس کا مداوا کیسے کیا جا سکتا ہے،اوپر بیان کی گئی صورت کے بارے درج ذیل سوالات کے توسط سے شرعی راہنمائی کی درخواست ہے :

1۔کیا والد صاحب کی طرف سے ہبہ کے لئے اپنایا گیا طریقہ کار درُست ہے؟ 

2۔کیا بڑے بھائیوں کا والد کی رضا کے لئے چھوٹے بھائیوں کے حق میں دستبردار ہونا جائز ہے؟ 

3۔کیا والد صاحب کا بیٹوں کو غیر متعین حصہ بہن کو دینے کی ہدایت کرنا درُست ہے؟ 

4۔کیا والد صاحب کا بعد میں بیٹوں کو بہن کو کچھ دینے سے منع کرنا درُست ہے؟ 

5۔کیا بیٹی کا اپنے حق سے دستبردار ہونے کے بعد اور جائیداد کی منتقلی کے بعد پھر دوبارہ مطالبہ کرنا درُست ہے؟ 

6۔اگر بیٹی کو برابری کی بنیاد حصہ دینا لازم ہے، تو بہن، بھائیوں کی تعداد پانچ ہونے کی بنیاد پر بیٹی کو پانچواں حصہ ملے گا یا دو بھائیوں کے اپنے حق سے دستبردار ہونے کی وجہ سے تیسرا حصہ یا پھر والد صاحب کی خواہش پر اس سے بھی کم ہو سکتا ہے؟ 

اگر جو کچھ ہوا وہ غلط تھا تو اس کا حل کیا ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ شرعاً ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے، اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری  ہوتی  ہے، رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا  ہے، بلاوجہ کسی کو محروم کرنا یا  بعض اولاد کو زیادہ دینااور بعض کو کم دینا جائز نہیں ،البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بنسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت ودِین داری یا غریب ہونے کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بنسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے،

1۔اب صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً   سائل کے والد نے   اپنے چھوٹے بیٹوں کی مالی کمزوری کی بناپر   اپنے بڑے  بیٹوں اور بیٹی سے اجازت  لے کر اپناسامان آدھاآدھاتقسیم کرکے دونوں بیٹوں کو اپنا اپنا حصہ دے دیاتھاتو یہ فعل شرعاً درست  تھا ،بشرطیکہ مذکورہ مکان پر والد رہائش پذیر نہ ہوں۔

2۔  زندگی میں اولاد کے مابین جو جائیدا تقسیم کی جاتی ہے ، چوں کہ وہ ہبہ ( گفٹ) ہے،اور اولاد کے درمیان جائیداد کی تقسیم میں کسی کو محروم کرنا درست نہیں ، ہاں اگر  دیگراولاد  اپنا حصہ لے کر دوسرے بھائی بہنوں کو دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔

3،4،5،6۔ واضح رہے کہ جو چیز قابل تقسیم ہو اور وہ متعدد افراد کو ہبہ(گفٹ)کی جارہی ہو  تو اس چیز کا ہبہ مکمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ چیز تقسیم کر کے ہر بندے کا حصہ الگ کرکے  اس کے قبضہ میں دے دیا جائے ، صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد نے   گھر اپنے دوبیٹوں کو ھبہ (گفٹ)کرکے دے دیاتھا تو سوال میں یہ واضح نہیں کہ بوقت ھبہ (گفٹ)والد خود بھی اس مکان میں سکونت پذیر تھے یا نہیں؟اگرسکونت پذیر تھے تو دونوں بیٹوں کے حق میں یہ ھبہ شرعاً درست اور  مکمل نہیں ہوا،اور اگر سکونت  پذیر نہیں تھے تو والد نے مکان کو باقاعدہ  تقسیم کرکے ان دونوں کو ہبہ   کیاتھا  یعنی ہر ایک کا حصہ  متعین کر کے ھبہ کیا  تھاتو اس صورت میں ان دونوں کے حق میں یہ ھبہ شرعاً مکمل اور درست ہوا،ورنہ نہیں۔

باقی زیرِ نظر مسئلہ میں اوپر ذکر کردہ  جس صورت میں شرعاً ہبہ معتبر نہ ہوا ہے، تو ایسی صورت میں یہ مکان والد کا ترکہ ہے، جس میں تمام شرعی ورثاء اپنے اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے حقدارہو ں گے،تاہم اس کے باوجود مذکورہ مکان والد کا ترکہ ہونے کی صورت میں ہر وارث بشمول مذکورہ بیٹی اپنے شرعی حصہ کے بقد ر حقدارہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال:فأرجعه و في رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم."

(باب العطایا، ج:1، ص:261، ط: قدیمی)

"ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔"

(مظاہر حق،باب العطایا ،ج:3، ص: 193 ط: داراالاشاعت)

البحرائق میں ہے:

"‌يكره ‌تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم."

(كتاب الهبة، هبة الاب لطفله، ج:7، ص: 288، ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة."

(کتاب الہبۃ،ج:4،ص:374،ط:سعید)

وفيه أيضاً:

"ولاتصح في مشاع يقسم ويبقى منتفعاً به قبل القسمة وبعدها، هكذا في الكافي."

(4/374، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لايجوز، ط: سعید)

الفتاوى التاتارخانیة  میں ہے:

"وفي المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته و أن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، و كذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار."

(14/431،  فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز،  نوع منہ، ط؛ زکریا، دیوبند، دہلی)

 عنایہ  شرح ہدایہ میں ہے:

"( وإن وهب هبة لذي رحم محرم منه فلا رجوع فيها )لقوله عليه الصلاة والسلام «إذا كانت الهبة لذي رحم محرم منه لم يرجع فيها» ؛ ولأن المقصود فيها صلة الرحم وقد حصل."

(ج:9، ص: 44، ط: دارالفکر بیروت)

 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502101212

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں