بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا طریقہ


سوال

والد والدہ کی پانچ بیٹیاں ہیں، ایک گھر ہے ، جو والدہ کے نام پر ہے، اگر وہ زندگی میں تقسیم کرنا چاہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ اور اگر وراثت کے حساب سے انتقال کے بعد تقسیم ہو تو اس کا کیا طریقہ کار ہوگا ؟ کون کون اس میں وارث بنے گا؟ یعنی ایک شوہر اور پانچ بیٹیاں اگر پیچھے وارث ہوں تو ان کے ساتھ اور کون کون وارث بنے گا؟

جواب

زندگی میں ہر شخص اپنی املاک کا خود مالک ہوتا ہے، کسی دوسرے کواس کی اجازت کے بغیر  اس میں تصرف کا کوئی اختیار نہیں ہوتا، لہذا والدین پر لازم اور ضروری نہیں کہ وہ اپنی جائیداد اپنی زندگی میں اولاد کے درمیان تقسیم کر یں اور اولاد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ والدین سے ان کی جائیداد کی تقسیم کا مطالبہ کریں، لیکن اگر کوئی شخص خوشی سے اپنی جائیداد  زندگی میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو چاہیے کہ اس میں سے اپنے لیےحسبِ ضرورت رکھ لے ، تا کہ بوقتِ ضرورت کام آئے، بہتر یہ ہے کہ  شوہر بیوی کو آٹھواں حصہ اور بیوی شوہر کو چوتھا حصہ دے، اس کے بعد بقیہ جائیداداپنی اولاد کے درمیان برابر برابرتقسیم کر ے، یعنی جتنا بیٹوں کو دےاتنا ہی بیٹیوں کو بھی دے، شرعی وجہ کے بغیرکمی زیادتی نہ کرے، تا ہم اگر کسی شرعی وجہ کی بنا  (مثلاً کسی کی اطاعت، فرمانبرداری، نیکی یا غربت ) کی بنیاد پر کسی کو زیادہ دے تو ایسا کرنا جائز ہو گا، دوسروں کو ضرر پہنچانے کی نیت سے کسی ایک کو زیادہ دینا جائز نہیں۔

یہ طریقہ زندگی میں جائیداد کی تقسیم کا ہے، باقی جہاں تک وراثت کا تعلق ہےتو میاں بیوی میں سے ہر ایک آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں، اسی طرح اولاد اپنے ماں باپ کی وارث ہوتی ہے، اسی طرح اگر والدین حیات ہوں تو والدین بھی وارث ہوتے ہیں، باقی نرینہ  اولاد نہ ہونے کی وجہ سے بیٹیوں کے علاوہ دیگر عصبات  بھی وارث ہوں گے۔فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109201269

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں