بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ


سوال

میرے دو  مکان ہیں جس کی مالیت تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ روپے ہے،میں اپنی زندگی میں یہ سب کچھ تقسیم کرنا چاہتا ہوں، میری بیوی فوت ہوچکی ہے،ورثاء  میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں، شرعی تقسیم بتاکر ہر ایک کا حصہ متعین فرمائیں۔

جواب

1۔واضح رہے کہ زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا میراث نہیں بلکہ ہبہ کہلاتا ہے، اور ہبہ (گفٹ) میں اولاد کے درمیان برابری کا حکم ہے،یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے  کسی کو کم دینا یا کسی کو محروم کرناشرعا درست نہیں ہے،اس سے اجتناب کرنا لازم ہے،حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اپنے اولاد کو عطیہ دینے میں برابری کرو جیسے کہ  تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارے ساتھ نیکی کرنے میں برابری کرے، لہٰذا والدین کو چاہئے کہ اولاد میں جو کچھ تقسیم کریں وہ انصاف اور برابری کے ساتھ کریں،البتہ والدین دین داری ،خدمت گزاری یا تنگدست ہونے کی بنیاد پر کسی بچے/بچی کو کچھ زیادہ حصہ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں،نیز بچوں میں جس کو جو حصہ دیا جائے اسے اس حصہ پر مکمل قبضہ اور مالکانہ اختیارات دینا ضروری ہے، صرف نام کر دینا کافی نہیں ہوگا۔

صورت مسئولہ میں سائل جو بھی جائیداد کی تقسیم کرنا چاہتا ہے اس کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنے لیے جتنا حصہ رکھنا چاہے الگ کرلے،تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے،اس کے بعد باقی ماندہ جائیداد تمام بیٹوں اور بیٹیوں میں برابر تقسیم کرے،یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،البتہ سائل دین داری ،خدمت گزاری یا تنگدست ہونے کی بنیاد پر کسی بچے/بچی کو کچھ زیادہ حصہ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔

شامی میں ہے:

"وفی الخانیۃ: لا باس بتفضیل بعض الاولاد فی المحبۃ، لانھا عمل القلب،وکذا فی العطایا ان لم یقصد بہ الاضرار،وان قصد فسوی بینھم یعطی الابن کالبنت عند الثانی وعلیہ الفتویٰ."

                                 (کتاب الھبۃ،ج5،ص696،ط:سیعد)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه»الی قولہ۔۔۔«فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم».قال: فرجع فرد عطيته. وفي رواية: أنه قال: «لا أشهد على جور."

(ج:2 ص:909 باب فی العطایا ط:المکتب الاسلامی)

 

 شرح معانی الآثار میں ہے:

"عن الشعبی قال: سمعت النعمان علی منبرنا ھذا یقول: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: "سووا بین اولادکم فی العطیۃ کما تحبون  ان یسووا بینکم فی البر".

(ج:4 ص: 86 کتاب الھبۃ ط: عالم الکتب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100268

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں