بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد کی تقسیم


سوال

میرے پاس ایک گھر ہے جس کی مالیت 5500000 روپے ہے ،ابھی میں یہ گھر فروخت کر رہا ہوں ،میں زندگی میں تقسیم کرنا چاہتا ہوں ،میرے 3 لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں ،جس میں سے ایک لڑکی اور دو لڑکے کنوارے ہیں ،اور میں اور میری بیوی ہے ،میری ایک بہن بھی ہے جو کہ کنواری ہے ،مجھ پر سات لاکھ روپے قرضہ بھی ہے ،مجھے یہ بتائیں کہ کیا میں اپنے لیے کچھ رکھ سکتا ہوں ،یا اس تقسیم کو موخر کر سکتا ہوں ۔

جواب

واضح رہے کہ شریعت  نے ہر انسان کو اپنے مال و جائیداد میں جائز تصرف کا حق دیا ہے ،لہذا زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا کوئی  ضروری نہیں البتہ اگر کوئی  شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہے تو  کر سکتا ہے ،اور یہ شرعا ہبہ (گفٹ) ہے ،البتہ زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد کو تقسیم کرنے کی صورت میں شرعًا بیٹا بیٹی میں برابری ضروری ہے یعنی جتنا حصہ بیٹے کو دیا جائے اتنا ہی بیٹی کو  دیا جائے ۔نیز تقسیم کے بعد ہر ایک کا حصہ عملًا  ہر ایک کے قبضہ و تصرف میں دینا بھی ضروری ہے ،محض زبانی یا تحریری ہبہ کافی نہیں ہے ۔نیز یہ بھی واضح رہے کہ زندگی میں تقسیم کرنا لازم اور ضروری نہیں ہے ،نہ اولاد والد کو اس پر مجبور کر سکتی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل اپنی زندگی میں اپنی رضا اور خوشی سے جائیداد کو تقسیم کرنا چاہتا ہے تو بہتر یہ ہے کہ  سائل اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لے تاکہ کل کو محتاجی نہ ہو  ،اس کے بعد  کل مال کا کم از کم آٹھواں حصہ اپنی بیوی کو دے دے ،پھر بقیہ رقم  تمام اولاد میں برابر سرابر تقسیم کردے ، کمی بیشی نہ کرے ، البتہ اگر اولاد میں کوئی خدمت گزار یا تنگدست یا دیندار ہو تو اسے دیگر کے مقابلے میں کچھ زیادہ دینا بھی جائز ہے۔بہن سائل کی اولاد کی موجود گی میں  سائل کی جائیداد میں شرعاً وارث نہیں ہے ،لیکن اگر سائل اسے کچھ دینا چاہے تو اسے اس بات کا اختیار ہے۔

مشکاۃ المصابیح  میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية: أنه قال: «أيسرك أن يكونوا إليك في البر سواء؟» قال: بلى قال: «فلا إذاً» . وفي رواية:،،،إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله قال: «أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟» قال: لا قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم» . قال: فرجع فرد عطيته. وفي رواية: أنه قال: «لا أشهد على جور."

(  باب العطایا،ج:1،ص:267،ط:رحمانیہ)

ترجمہ:"حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد نے مجھے جناب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے کر آئے اور کہنے لگے میں نے اس بیٹے کو ایک غلام بخشاہے توآپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کو اسی بیٹے جیسا غلام دیا ہے؟انہوں نے کہا نہیں  تو اس پر آپ ﷺ نے فرمایا  کہ اس غلام کو واپس لے اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم پسند کرتے ہو کہ تمہارے سب بیٹے  تمہارے ساتھ نیکی میں برابر ہوں( یعنی تیرے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے ہو ں اور تیری فرمانبرداری اور تعظیم کرنے والے ہوں) تو انہوں نے کہا جی ہاں :پس آپ ﷺ نے فرمایا کہ مناسب نہیں  کہ تم اپنے  اس اکیلے لڑکے کو غلام دو۔اورایک روایت میں ہے(کہ میرے والد)کہنے لگے کہ میں نے اس بیٹے کو جو عمرہ بن رواحہ سے ہے ایک چیز دی ہے تو عمرہ کہنے لگی کہ اس پر آپﷺ کو گواہ بناؤں  ،تو آپ ﷺ نے فرمایا کیاتم نے اپنے تمام بیٹوں کو اس طرح چیز دی ہے ؟اس نے کہا نہیں تو اس پر آپ ﷺ نے فرمایا :اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف کرو۔نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میرے والد واپس آئے اور دی ہوئی چیز واپس پھیرلی ، اور ایک  روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔یہ بخاری ومسلم  کی روایت ہے ۔"

 (مظاہر حق،ص:,16215،ج:3،ط:مکتبۃالعلم)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدين میں ہے :

"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرًا أحدًا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه، و في صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله و اعدلوا في أولادكم»، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا و الوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية: ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره، وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى."

(کتاب الوقف ،مطلب في المصادفة علی النظر،ج:4ص: 444،ط:سعید)

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

"و في هذا الحديث: أنه ينبغي أن يسوي بين أولاده في الهبة و يهب لكل واحد منهم مثل الآخر و لايفضل و يسوي بين الذكر و الأنثى، و قال بعض أصحابنا: يكون للذكر مثل حظ الأنثيين، و الصحيح المشهور أنه يسوي بينهما؛ لظاهر الحديث، فلو فضل بعضهم أو وهب لبعضهم دون بعض فمذهب الشافعي و مالك و أبي حنيفة أنه مكروه و ليس بحرام، و الهبة صحيحة، و قال طاوس و عروة و مجاهد و الثوري و أحمد و إسحاق و داود هو حرام، و احتجوا برواية: "لاأشهد على جور"، و بغيرها من ألفاظ الحديث، و احتج الشافعي و موافقوه بقوله صلى الله عليه وسلم: "فأشهد على هذا غيري"، قالوا: و لو كان حرامًا أو باطلًا لما قال هذا الكلام، فإن قيل: قاله تهديدًا، قلنا: الأصل في كلام الشارع غير هذا، و يحتمل عند إطلاقه صيغة أفعل على الوجوب أو الندب، فإن تعذر ذلك فعلى الإباحة، و أما قوله صلى الله عليه وسلم: "لاأشهد على جور"، فليس فيه أنه حرام؛ لأن الجور هو الميل عن الاستواء و الاعتدال، و كل ما خرج عن الاعتدال فهو جور سواء كان حرامًا أو مكروهًا، و قد وضحّ بما قدمناه أن قوله صلى الله عليه وسلم: "أشهد على هذا غيري" يدلّ على أنه ليس بحرام؛ فيجب تأويل الجور على أنه مكروه كراهة تنزيه.

و في هذا الحديث: أن هبة بعض الأولاد دون بعض صحيحة، و أنه إن لم يهب الباقين مثل هذا استحبّ رد الأول. قال أصحابنا: يستحب أن يهب الباقين مثل الأول فإن لم يفعل استحبّ رد الأول و لايجب، و فيه جواز رجوع الوالد في هبته للولد، والله أعلم."

(کتاب الہبات ،باب کراہۃ تفضیل بعض الاَولاد   فی الہبۃ ، ج11،ص66۔67،ط:داراحیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100834

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں