بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد کی تقسیم کا طریقہ


سوال

1۔میرے دو بیٹے اور سات بیٹیاں ہیں، میں اپنے مکان کو بیچ کر ان کو ان کا حصہ دینا چاہتا ہوں۔ اس کی شرعی تقسیم کس طرح ہوگی؟

2۔نیز میں خود بھی بیمار آدمی ہوں، میرا بھی خرچہ ہوتا ہے، میں نہیں چاہتا کہ سارا کچھ دینے کے بعد اولاد سے اپنا خرچہ مانگوں، کیوں کہ وہ لوگ بھی اولاد والے ہیں، تو میں اپنی جائے داد میں سے اپنے لیے کتنا رکھ سکتا ہوں؟ اب تک تو میں مذکورہ مکان کے کرائےسے اپنا خرچہ وغیرہ نکال لیتا ہوں۔ بیٹیاں مشورہ دیتی ہیں کہ آپ تیس لاکھ روپے ہمیں نہ دیں، بلکہ تیس لاکھ روپے آپ اسلامی بینک میں رکھ لیں، اس سے جو منافع آئے اس سے اپنا خرچہ پورا کیا کریں، آپ کے انتقال کے بعد وہ رقم ہم نکال لیں گے، براہِ مہربانی راہنمائی فرمادیں کہ میں اپنے گزر بسر کے لیے کتنی رقم اپنے پاس رکھ سکتا ہوں ؟

جواب

1۔واضح رہے کہ آدمی اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا  خود ہی مالک ہوتا ہے، اس میں اولاد وغیرہ کا کوئی حق و حصہ نہیں ہوتا ، اسے اختیار ہے کہ وہ جیسے چاہے جائز طریقے سے اپنی جائیداد میں تصرف کرے ، خود استعمال کرے  یا کسی کو ہبہ کردے ، اگر آدمی زندگی میں اپنی جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتاہے تو کرسکتا ہے، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے لئے جتنا حصہ رکھنا چاہے رکھ لے، تاکہ کسی کی محتاجی نہ ہو، اس کے بعد بیوی کو جتنا دینا چاہے دے دے ، لیکن بہتر یہ ہے کہ آٹھویں حصے سے کم نہ دے ، اس کے بعد بقیہ جائیداد تمام اولاد بیٹے اور بیٹیوں میں برابر سرابر تقسیم کردے ، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے ، اس لئے کہ زندگی میں جائیداد کی تقسیم ہبہ ہے میراث نہیں ، اس لئے اس میں برابری کا حکم ہے، بلاعذر کسی کو کم دینا اور کسی کو زیادہ دینا یا کسی کو بالکل محروم کرنا درست نہیں۔ البتہ اگر کسی بیٹے یا بیٹی کو زیادہ دِین دار یا خدمت گزار  یا ضرورت مند ہونے  کی وجہ سے دیگر کے مقابلے میں کچھ زائد دینا چاہے تو اس کی گنجائش ہے۔ دوسری بات یہ بھی ضروری ہے کہ جائے داد  تقسیم کرکے ہر ایک کو اس کے حصہ پر باقاعدہ ایسا قبضہ دے دیا جائے کہ اس کو اس میں تصرف کرنے کا پورا اختیار ہو، ورنہ شرعاً یہ ہبہ معتبر نہیں ہوگا۔

2۔آپ اپنی زندگی میں چوں کہ اپنی جائے داد کے مالک ہیں، اس لیے آپ اپنی مرضی سے جتنی مقدار اپنے لیے رکھنا چاہیں رکھ سکتے ہیں، اس بارے میں شریعت کی طرف سے نہ ہی کوئی مقدار طے شدہ ہے اور نہ ہی کوئی پابندی ہے، اس لیے آپ اپنی ضرورت کے مطابق جو چیز بھی اپنے لیے روک لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن آپ کی بیٹیوں نے آپ کو تیس لاکھ روپے اسلامی بینک میں رکھ کر منافع وصول کرنے کا جو مشورہ دیا ہے وہ درست نہیں ہے، کیوں کہ کسی بھی بینک خواہ  اسلامی ہوں یا غیر اسلامی ، میں پیسے رکھ کر نفع لینا جائز نہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: " أكل ولدك نحلت مثله؟ " قال: لا، قال: " فأرجعه ". وفي رواية ... قال: " فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم ."

(مشکاۃ المصابیح ،باب العطایا، 1/ 261، ط: قدیمی)

ترجمہ:"حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ  …  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔"

(مظاہر حق، باب العطایا،ج:3، ص:193، ط: دارالاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے :

" أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه - صلى الله عليه وسلم - قال " سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال " رواه سعيد في سننه، وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: " اتقوا الله واعدلوا في أولادكم "، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية، فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى."

(کتاب الوقف، مطلب في المصادقة على النظر، 4/ 444، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144511100480

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں