بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مورث کا زندگی میں ہی ایک وارث کو حصہ دے کر معاہدہ کرنا کہ مرنے کے بعد کوئی حصہ نہ ہوگا


سوال

1۔میں اپنے بیٹے کو زندگی میں اس کا حصہ دینا چاہتا ہوں اور میری وفات کے بعد اس کا حصہ نہیں ہوگا،میرے والدین حیات ہیں ،میرے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور  بیوی بھی حیا ت ہے۔میری جائیداد میں ایک مکان تھا  جو میں نے اڑتالیس لاکھ روپے میں  فروخت کیا ہے۔اب پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ بیٹے کو کتنا حصہ ملے گا۔

2۔میری بیوی کو ان کی والدہ   کی طرف سے وراثت میں ڈھائی لاکھ روپے ملے تھے جو ایک بیٹے کی شادی میں اس نے خرچ کیے تھے اور خرچ کرتے وقت کوئی معاہدہ  وغیرہ بھی نہیں ہوا تھا ،اب وہ چاہتی ہے میں اس مکان کی قیمت میں سے وہ ڈھائی لاکھ  روپے اس کو دوں  ،تو کیا وہ  یہ پیسے مکان کی قیمت میں سے لے سکتی ہے؟

جواب

1۔صورت مسئولہ میں سائل اپنی جائیداد کا تنہا مالک ہے  ،کسی وارث کے لیے سائل کی حیات میں اپنے حصہ کا مطالبہ کرنا شرعا درست نہیں ہے اور نہ ہی سائل اس کو حصہ دینے کا پابند ہے کیوں کہ میراث کا تعلق آدمی کی وفات کے بعد کے زمانہ سے ہے،تاہم اگر سائل اپنی خوشی اور رضامندی سے اپنے ایک بیٹے کو زندگی میں اس کا حصہ دینا چاہتا ہےتاکہ  والد کے ترکہ میں کوئی حصہ نہ ہو اور مذکورہ بیٹا بھی اس بات پر راضی ہے تو ایسا کرسکتا ہے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو  گواہوں کی موجودگی میں سائل مذکورہ بیٹے کو اس کا حصہ دے کر یہ معاہدہ کر لے کہ یہ تمہارا میری میراث  میں سے حصہ ہے اور میرے  بعد تمہیں میری میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا۔نیز مذکورہ معاہدہ کو تحریری شکل بھی دے دی جائے  جس پر دونوں فریقین کے دستخط بھی  ہوں تاکہ بوقت ضرورت سند رہے۔

باقی زندگی میں سائل  مذکورہ بیٹے کو جو حصہ دےگا اس کی کوئی بھی مناسب رقم(مثلا کل جائیداد کا 13.542 فیصد) باہمی رضامندی سے طے کی جاسکتی ہے۔

2۔سائل کی بیوی نے ایک بیٹے کی شادی پر بغیر کسی معاہدہ کے ڈھائی لاکھ روپے جو خرچ کیے ہیں ،وہ بیوی کی طرف سے بیٹے کے حق میں تبرع اور احسان تھا۔بیوی کے لیے مذکورہ رقم کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے،تاہم اگر سائل  مذکورہ رقم بیوی کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے جو بیوی کےحق میں ہدیہ(گفٹ)شمار ہوگی۔

وفي درر الحكام في شرح مجلة الأحكام :

"‌كل ‌يتصرف في ملكه كيفما يشاء ولكن يوجد فرق بين الوكالتين مثلا للوكيل بالوكالة المضافة على هذا الوجه أن يبيع الرهن حينما يحل وقت أداء الدين وليس له بيعه قبل ذلك (راجع المادة 1456)"

(کتااب الثانی الاجارۃ3/ 201/دار الجلیل)

وفي الدر المختار و حاشية ابن عابدين :

"قال القهستاني: واعلم أن الناطفي ذكر عن بعض أشياخه أن المريض إذا عين لواحد من الورثة شيئا كالدار على أن لا يكون له في سائر التركة حق يجوز، وقيل هذا إذا رضي ذلك الوارث به بعد موته فحينئذ يكون تعيين الميت كتعيين باقي الورثة معه كما في الجواهر اهـ"

(كتاب الوصايا،6/ 655،ط:سعيد)

وفي الدر المختار و حاشية ابن عابدين :

"جهز ابنته بجهاز وسلمه ذلک لیس له الاسترداد منها، ولا لورثته  بعده إن سلمها ذلک في صحته بل تختص به، وبه یفتي۔"

(کتاب النکاح/باب المھر،155/3،ط: سعید )

وفي الدر المختار :

"من قام عن غيره بواجب بأمره رجع بما دفع وإن لم يشترطه كالأمر بالإنفاق عليه وبقضاء دينه إلا في مسائل أمره بتعويض عن هبته وبإطعام عن كفارته وبأداء عن زكاة ماله وبأن يهب فلانا عني ألفا في كل موضع يملك المدفوع إليه المال المدفوع إليه مقابلا بملك مال، فإن المأمور يرجع بلا شرط وإلا فلا، وتمامه في وكالة السراج، والكل من الأشباه وفي الملتقط."

(کتاب الکفالہ/5/ 333/ط:سعید)

وفی الدر المختار مع  الشامية:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل۔۔۔۔۔۔۔إلخ

(کتاب الهبہ،690/5،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100168

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں