بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں بیوی بچوں میں جائیداد تقسیم کرنا


سوال

میرے والد   زندہ ہیں، ان کے پاس  100 روپے ہیں، ہم 2 بھائی اور 3 بہنیں ہیں اور میری والدہ بھی موجود ہیں، یہ وراثت کیسے تقسیم ہو گی اور سب کے حصہ میں کتنے کتنے روپے آئیں گے؟ مجھے ہبہ کے بارے میں سوال پوچھنا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص کی زندگی میں اس کی مملوکہ جائیداد میں کوئی دوسرا شخص حصہ دار یا حق دار نہیں ہوتا ، لہذا اس سے اس کی مملوکہ اشیاء کا استحقاق سمجھتے ہوئے تقسیم کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔ نیز اپنی خوشی سے  زندگی میں تقسیم کی جانے والی جائیداد ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے، وراثت  نہیں۔ نیز ہبہ (گفٹ) کا حکم یہ ہے کہ اس میں تمام اولاد (بیٹے اور بیٹیوں) میں برابری کی جائے۔ البتہ اولاد میں سے کسی کو فرمانبرداری، دین داری یا محتاجگی کی وجہ سے کچھ زائد حصہ بھی دیا جاسکتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کا والد  اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان جائیداد  کی تقسیم  کرنا چاہتا ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے لیے اس قدر رکھ لے جس سے بقیہ زندگی بغیر محتاجگی کے گزار سکے، بہتر یہ ہے کہ بیوی کو آٹھواں حصہ دے، اس کے بعد  بقیہ جائیداد اولاد (بیٹوں اور بیٹیوں)  میں برابری کے ساتھ  تقسیم کردے اور  ہر ایک کو اپنا حصہ مکمل قبضہ اور تصرف کے ساتھ دے دے، کسی شرعی وجہ کے بغیر اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) میں کمی بیشی کرنا جائز نہیں، لیکن اگر کسی کی خدمت،اطاعت،  دین داری یا محتاجگی کی وجہ سے اسے اوروں کی بہ نسبت زیادہ دے تو اس کی گنجائش ہے۔

البحر الرائق میں ہے :

وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة

(۷/۲۸۸، دار الكتاب الإسلامي)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے:

وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى

(5 / 696، سعید)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)  میں ہے:

(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل

(5 / 690، سعید) فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144110200535

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں