(۱) ایک شخص کے ایک سے زائد بچے ہیں، جن میں لڑکے بھی ہیں، اور لڑکیاں بھی، اب والد اپنی زندگی میں جائیداد میں سے کچھ حصہ بچوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تو اس کی کیا صورت ہوگی؟ کیا سب کو برابر دینا ضروری ہے یا کسی کو زیادہ دینے کی بھی گنجائش ہے؟ اگر کسی کو زیادہ دینا چاہے یا کوئی پراپرٹی بیٹی کے نام کرنا چاہے تو کیا دوسرے بچوں کے نام بھی پراپرٹی کرنی ہوگی؟
(۲) دوسری بات یہ ہے کہ اگر والد کسی بچے کو رقم دے کر عمرہ کے لیے بھیج دے تو کیا باقیوں کو بھی عمرہ کروانا ہوگا؟یا اگر رقم نہ دے بلکہ اپنے ساتھ لےکر جائے تو اس صورت میں بھی باقیوں کو عمرہ کروانا ہوگا؟
اور اس میں بیٹیوں کے شادی شدہ ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق پڑے گا یا نہیں؟
واضح رہے کہ زندگی میں والدین اگر اپنی اولاد کو اپنی رضامندی سے کوئی چیز ہبہ (گفٹ) کریں تو اس میں تمام اولاد میں برابری کرنا شرعاً لازم ہے، یعنی اگر ایک کو کوئی چیز دیں تو اس کے برابر باقی سب کو دینا بھی لازم ہے، بلاوجہ کسی کے حق میں کمی بیشی کرنا یا کسی کو محروم رکھنا جائز نہیں، البتہ اگر کسی معقول وجہ کی بنا پر کسی کو دوسروں پر ترجیح دینا چاہیں یعنی محتاجی، کثرت شرافت، وفرماں برادری یا خدمت کی وجہ سے کسی کو دوسروں کی بہ نسبت زیادہ دینا چاہیں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
(۱) چناں چہ صورتِ مسئولہ میں صرف ایک بیٹی کو پراپرٹی ہبہ (گفٹ) کرنااور دوسروں کو نہ دینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر بیٹی کی حاجت مندی، فرماں برداری، کثرت شرافت و خدمت وغیرہ کی وجہ سے اسے دوسروں کی نسبت زیادہ دینا چاہتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے، لیکن اگر بیٹی کو ترجیح دینےکی کوئی معقول وجہ نہیں ہے تو پھر سب کو برابر دینا ضروری ہے۔
(۲) عمرہ پر والد اگر کسی بیٹے کو اپنے ساتھ معاون اور خادم کے طور پر لے جارہے ہیں تو اس صورت میں دوسرے بچوں کو بھی عمرہ کروانا ضروری نہیں ہوگا، لیکن اگر ساتھ نہیں لےجارہے بلکہ بیٹے کو رقم دےکر عمرہ کروارہے ہیں تو یہ والد کی طرف سے ہبہ (گفٹ) ہے جس میں سارے بچوں میں برابری کرنا ضروری ہے، لہٰذا ایسی صورت میں تمام بچوں کےلیے عمرہ کی رقم کاانتظام کرنا لازم ہوگا، چاہے بیٹیاں شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ ہوں۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: أكل ولدك نحلت مثله؟ قال: لا قال: فأرجعه و في رواية ...... قال: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم."
(مشکاۃ المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)
”(ترجمہ) حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا : ”نہیں “، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ …… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔“
(مظاہر حق جدید،باب العطایا 3/ 193 ط: دارالاشاعت)
فتاوی شامی میں ہے:
"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرًا أحدًا لآثرت النساء على الرجال، رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: اتقوا الله واعدلوا في أولادكم، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية : و لو وهب شيئًا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره، و روى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى، و قال محمد : ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيًا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف :وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل."
(كتاب الوقف، 4/ 444، ط:سعيد)
وفيه أيضا:
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها وإن شاغلا لا...."
(کتاب الھبة، 5/ 690، ط:سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602102453
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن