بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں اولاد کے نام جائیداد کرنے کے بعد دوبارہ ان سے واپس لینا


سوال

میں نے اپنی کمائی سے جائیدادیں بنائیں اور زندگی میں کچھ   بیٹوں کے کاغذی طور پر نام کی ہیں اور  دو کو عملی قبضہ وتصرف بھی دیا ہے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ اب دوبارہ ساری جائیداد میری ملکیت میں رہے، تاکہ بیٹوں اور بیٹیوں کو برابری کا حصہ ملے اور  صرف میراث میں ہی تقسیم ہو، نہ کی زندگی میں، اب کیا میں نے جو  ان کے نام کی ہیں،  وہ واپس لے سکتا ہوں؛ تاکہ میری ملکیت میں رہے اور بعد میں جاکر صرف میراث میں تقسیم ہو؟

جواب

واضح رہے کہ انسان کا اپنی زندگی میں اپنی جائیداد میں سے کسی کو کچھ دینا ہبہ (گفٹ) کہلاتا ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلامًا، فقال: «أكلّ ولدك نحلت مثله؟» قال: لا، قال: «فأرجعه». وفي رواية ... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»".

(مشکاة المصابیح،باب العطایا،1/261،  ط : قدیمي)

” ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیر  کے بارے  منقول ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر ؓ) انہیں  رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام عطا کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو، ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔“

(مظاہر حق، باب العطایا،3/193، ط؛ دارالاشاعت)

نیز     ہبہ (گفٹ) کے مکمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ واہب (ہبہ کرنے والا) موہوبہ چیز (جس چیز کا ہبہ کیا جارہاہے)  کو موہوب لہ (جس کو ہبہ کررہا ہے) کے نام کرنے کے ساتھ اس کا مکمل  قبضہ اور تصرف بھی دے دے، اور ہبہ کے وقت موہوبہ چیز سے اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کردے، ورنہ شرعاً ہبہ درست نہیں ہوتا۔

صورتِ مسئولہ میں سائل نے جو جائیداد  صرف کاغذی طور پر اپنے بیٹوں کے نام کی ہیں  ،  ان کو باقاعدہ مالکانہ حقوق  کے ساتھ گفٹ نہیں کی ہیں تو وہ بدستور سائل ہی کی ملکیت میں برقرار ہیں،  البتہ  اپنی جو جائیداد    الگ الگ کرکے باقاعدہ تقسیم کرکے بیٹوں  کو   مالکانہ حقوق کے ساتھ گفٹ کردی  ہیں اور ان کا قبضہ   بھی ان کو دے دیا ہے تو اس کے مالک بیٹے ہوگئے ہیں، اب سائل  کے لیے  اس  سے رجوع کرنا جائز نہیں ہے، ہاں اگر وہ بیٹے خوشی سے   سائل کو گفٹ کردیں تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا۔

نیز اس صورت میں چوں کہ  چند بیٹوں کو  جائیداد  گفٹ کی ہیں اور باقی کو  محروم رکھا ہے تو اس کی  تلافی کی صورت یہ ہے کہ  باقی اولاد کو بھی  اس کے بقدر دے دے یا     وہ بیٹے    جن  کو جائیداد  گفٹ کی ہیں،  از خود  اپنی خوشی سے وہ جائیداد والد کو واپس دے دیں؛ تاکہ  والدکی خواہش کے مطابق وہ والد کے انتقال کے بعد بطور میراث تقسیم ہو۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية". 

( كتاب الهبة، الباب الثانی فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز،4 /378، ط: رشیدیة)

وفیہ ایضا:

"ليس له حق الرجوع بعد التسليم في ذي الرحم المحرم، وفيما سوى ذلك له حق الرجوع إلا أن بعد التسليم لاينفرد الواهب بالرجوع، بل يحتاج فيه إلى القضاء أو الرضا أو قبل التسليم".

 (كتاب الهبة، الباب الخامس فی الرجوع فی الھبة،4 /385، ط: رشیدیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144303101068

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں