بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد بیچ کر رقم بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان تقسیم کرنے اور تقسیم میں برابری نہ کرنے کا حکم


سوال

میرے  والد نے  اپنی زندگی میں کچھ  زرعی زمین فروخت کر کے اپنی مرضی سے بیٹے اور بیٹیوں میں اس طرح تقسیم کی  کہ  کسی بیٹے کو زیادہ روپے  دیے اورکسی بیٹے کو تھوڑا کم۔ اسی طرح کسی بیٹی کو تھوڑا زیادہ اور کسی کو کم۔ اس معاملے میں وراثت کی صحیح تقسیم کیسے ہونی  چاہیے؟

جواب

والد اگر اپنی زندگی میں اپنی خوشی سے اپنی جائے داد میں سے اگر  اولاد کو کچھ دے تو شرعاً یہ معاملہ ہبہ (گفٹ) کہلاتا ہے ،  اور اولاد کو ہبہ کرنے میں میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ سب کے درمیان برابری اور انصاف کا پہلو اختیار کرے ،رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 2008):

" وعن النعمان بن بشير، «أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلامًا فقال: أكل ولدك نحلت مثله؟ قال: لا، قال: فأرجعه» . وفي رواية أنه قال: «أيسرك أن يكونوا إليك في البر سواء؟ قال: بلى، قال: فلا إذا» ، وفي رواية: أنه قال: «أعطاني أبي عطية فقالت عمرة بنت رواحة: لا أرضى حتى يشهد رسول الله  صلى الله عليه وسلم فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله، قال: أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟ قال: لا، قال: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم. قال: فرجع فرد عطيته» . وفي رواية أنه قال: «لا أشهد على جور» . متفق عليه."

ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ آپ ﷺمنے فرمایا کے کیا تم نہیں چاہتے کہ تمہاری سب اولاد تمہارے ساتھ نیکی (خدمت اور ادب و احترم اور فرماں بردار ہونے) میں برابر ہو تو نعمان بن بشیر رضی للہ عنہ نے عرض کہ کیوں نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر ایسا نہ کرو، ایک اور روایت میں ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول شرعی وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی دین داری یا یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے، لیکن بعض کو دینا اور بعض کو محروم رکھنا یا بلا وجہ کم زیادہ دینا یہ شرعاً سخت گناہ ہے، اس سے بچنا لازم ہے۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں  آپ کے والد  مرحوم نے اپنی زندگی جو رقم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں  کو مالک بناکر  دے  دی تھی  اس کا وراثت سے کوئی تعلق نہیں،  اس میں وراثت کا ضابطہ  جاری  نہیں ہوگا، کیوں  کہ اس  کی حیثیت   ہبہ  کی ہے، لہٰذا  جس بیٹے یا بیٹی کو   مرحوم نے جتنی رقم اپنی زندگی میں دے دی وہ بیٹا اور بیٹی اس رقم کے مالک بن چکے ہیں، اب اس رقم میں میراث کا قاعدہ جاری نہیں ہوگا،  البتہ اگر مرحوم نے تقسیم میں یہ کمی و زیادتی بلاوجہ کی ہو اور اب  جن بیٹوں یا بیٹیوں کو دیگر کے مقابلہ میں کم رقم ملی ہو وہ اس تقسیم پر ناراض ہوں آپ کے والد مرحوم اس نا انصافی کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے اور آخرت میں جواب دہ ہوں گے، اس  لیے جن بیٹوں یا بیٹیوں کو دیگر کے مقابلہ میں زیادہ رقم ملی ہو ان کو چاہیے کہ کسی بھی طرح سے دیگر بہن بھائیوں کو والد مرحوم کو معاف کرنے پر راضی کریں، اگر مرحوم والد کی معافی کے  لیے وہ بیٹی اور بیٹیاں اپنے حصے کی زائد رقم میں دیگر کو شریک کرلیں تو یہ ان کے  لیے بڑی سعادت کی بات ہوگی، البتہ ایسا کرنا ان پر لازم نہیں ہے۔  اور اگر آپ کے والد کا ابھی انتقال نہیں ہوا تو آپ کے والد کو چاہیے کہ اس غیر منصفانہ ہبہ سے رجوع کرکے تمام اولاد میں برابری کریں، جیساکہ ر

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 2008):

’’ (وعن النعمان بن بشير) : بضم النون قال المؤلف: هو أول مولود ولد للأنصار من المسلمين بعد الهجرة، قيل: مات النبي صلى الله عليه وسلم وله ثمان سنين وسبعة أشهر ولأبويه صحبة (أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت) : بفتح النون والحاء المهملة أي: وهبت وأعطيت (ابني هذا غلاما) أي: عبدا قال في النهاية: النحل العطية والهبة ابتداء من غير عوض ولا استحقاق (فقال: آكل ولدك) : بنصب كل (نحلت مثله) أي: مثل هذا الولد دل على استحباب التسوية بين الذكور والإناث في العطية (قال: لا، قال: فأرجعه) أي: الغلام أو رده إليك، وقال ابن الملك: أي استرد الغلام وهذا للإرشاد والتنبيه على الأولى (وفي رواية) أي: لهما أو لأحدهما (أنه قال: أيسرك) أي: أيعجبك ويجعلك مسرورا (أن يكونوا) أي: أولادك جميعا (إليك في  البر سواء) أي: مستوين في الإحسان إليك وفي ترك العقوق عليك وفي الأدب والحرمة والتعظيم لديك، (قال: بلى، قال: فلا) أي: فلا تعط أي: الغلام له وحده أو فلا تعط بعضهم أكثر من بعض (إذا) : بالتنوين أي: إذا كنت تريد ذلك (وفي رواية أنه قال) أي: النعمان (أعطاني أبي عطية فقالت عمرة بنت رواحة) : بفتح أولهما وهي أمه (لا أرضى) أي: بهذه العطية لولدي (حتى يشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم) أي: تجعله شاهدا على القضية (فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم) أي: فجاءه أبي ( «قال: إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله، قال: أعطيت سائر ولدك مثل هذا» ) أي: باقي أولادك مثل هذا الإعطاء وهو بحذف الاستفهام مع أنه يمكن أن يقرأ بهمزة ممدودة (قال: لا، قال: فاتقوا الله) أي: حق تقواه أي: ما استطعتم (واعدلوا بين أولادكم) : وفي خطاب العام إشارة إلى عموم الحكم (قال) : فانصرف أبي من عنده عليه الصلاة والسلام (فرد عطيته) أي: إلى نفسه أو فرجع في هبته، وقوله: فرد تفسير له وفيه جواز رجوع الوالد في هبة ولده (وفي رواية: أنه) أي: النبي صلى الله عليه وسلم (قال: «لا أشهد على جور» ) أي: ظلم أو ميل فمن لا يجوز التفضيل بين الأولاد يفسره بالأول ومن يجوزه على الكراهة يفسره بالثاني، قال النووي: " فيه استحباب التسوية بين الأولاد في الهبة فلا يفضل بعضهم على بعض سواء كانوا ذكورا أو إناثا، قال بعض أصحابنا: ينبغي أن يكون للذكر مثل حظ الأنثيين، والصحيح الأول لظاهر الحديث فلو وهب بعضهم دون بعض فمذهب الشافعي، ومالك، وأبي حنيفة - رحمهم الله تعالى- أنه مكروه وليس بحرام والهبة صحيحة، وقال أحمد والثوري وإسحاق - رحمهم الله - وغيرهم: هو حرام، واحتجوا بقوله: «لا أشهد على جور» ، وبقوله: واعدلوا بين أولادكم، واحتج الأولون بما جاء في رواية: فأشهد على هذا غيري، ولو كان حراما وباطلا لما قال هذا، وبقوله: فأرجعه، ولو لم يكن نافذا لما احتاج إلى الرجوع، فإن قيل: قاله تهديدا، قلنا: الأصل خلافه، ويحمل عند الإطلاق صيغة أفعل على الوجوب أو الندب وإن تعذر ذلك فعلى الإباحة، وأما معنى الجور فليس فيه أنه حرام لأنه هو الميل عن الاستواء وكل ما خرج عن الاعتدال فهو جور، سواء كان حراما أو مكروها. وفي شرح السنة: في الحديث استحباب التسوية بين الأولاد في النحل، وفي غيرها من أنواع البر حتى في القبلة، ولو فعل خلاف ذلك نفذ. وقد فضل أبو بكر عائشة - رضي الله عنهما - بأحد وعشرين وسقا نحلها إياها دون سائر أولاده، وفضل عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - عاصما في عطائه، وفضل عبد الرحمن بن عوف ولد أم كلثوم، قال القاضي - رحمه الله -: وقرر ذلك ولم ينكر عليهم فيكون إجماعا (متفق عليه) .‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201460

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں