بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں اپنا گردہ کسی بیمار شخص کو ہدیہ کرنا


سوال

اگر كوئی صحت مند آدمی  کسی ایسے بیمار شخص کو جس کے دونوں گردے فیل ہوچکے ہوں، اپنا ایک گردہ  مفت دے، پھر  بعد میں یہی صحت  مند آدمی جس نے گردہ دیا تھا، اس کا دوسرا گردہ فیل ہوجائے ، اور  اس وجہ سے اس کی موت واقع ہوجائے تو کیا یہ شخص عند اللہ مأجور ہوگا  بوجہ گردہ دینے کے، یا مأخوذ  اور گناہ گار ہوگا ؛ کیوں کہ اس کے مرنے کا ظاہری سبب یہی گردہ دینا ہی تھا اور اس کا یہ عمل  (گردہ )  دینا جائز ہے کہ نہیں؟

جواب

کسی  انسانی عضو  کا  (خواہ زندہ کا ہو یا مردہ کا)   دوسرے انسان کے جسم میں استعمال (معاوضہ کے ساتھ ہو یابغیرمعاوضہ کے)مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد پر  جائز نہیں ہے:

1:       کسی انسان کے جسم سے عضو کے حصول کے لیے انسانی  جسم کی چیر پھاڑ کی جاتی ہے جو کہ ”مُثلہ“  ہے ، اور مثلہ شریعت میں جائز  نہیں ہے۔

2:    کسی چیز کو ہبہ(گفٹ) کرنے یا عطیہ کے طور پر کسی کو دینے کے لیے یہ شرط ہے کہ  وہ چیز  مال ہو ، اور دینے  والے کی ملکیت میں ہو ، اور یہی شرط وصیت کے لیے بھی ہے، انسان کو اپنے اعضاء میں منفعت کا حق  تو حاصل ہے، مگر حقِ ملکیت حاصل نہیں ہے، جن اموال و منافع پر انسان کو مالکانہ حق  حاصل نہ ہو،   انسان  ان اموال یا منا فع کی مالیت کسی دوسرے انسان کو منتقل نہیں کرسکتا۔

3:    انسانی اعضاء و جوارح انسان کے پاس امانت ہیں  اور انسان ان کا نگران اور محافظ ہے، اور امین کو  ایسے تصرفات کا اختیار نہیں ہوتا  جس کی اجازت امانت رکھنے والے نے نہ دی ہو۔

4:    انسان قابلِ احترام اور مکرّم ہے، اس کے اعضاء میں سے کسی عضو کو  اس کے بدن سے الگ کرکے  دوسرے انسان کو دینے میں انسانی تکریم کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاءِکرام نے علاج ومعالجہ  اور شدید مجبوری کے موقع پر بھی انسانی اعضاء کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے، نیز جس طرح کسی زندہ آدمی کے کسی عضو کو لے کر علاج کرنا درست نہیں ہے، اسی طرح کسی مردہ انسان کے عضو سے بھی علاج کرنا جائز نہیں ہے۔

یعنی آدمی کے تمام اعضاء سے فائدہ اٹھانے کی حرمت اس کی تکریم و احترم کے پیشِ نظر ہے؛  تاکہ جس ہستی کو اللہ تعالی نے مکرّم ومحترم بنایا ہے،  لوگ اس کے اعضاء و جوارح کو استعمال کرنے کی جسارت نہ کریں۔

  اگر انسانی اعضاء کی پیوندکاری کو جائز قرار دیا جائے تویہ پوری انسانیت کے لیے ایک بڑاخطرہ اورتباہی  کاذریعہ بنےگا؛ کیوں کہ موجودہ زمانہ کے حالات و ماحول اورمعاشرہ میں پھیلی ہوئی بددیانتی کودیکھتےہوئےکوئی بعیدنہیں کہ لوگ اسےباقاعدہ ایک کاروبار کی شکل دے دیں اوران ہی اعضاءکواپنا ذریعۂ معاش بنالیں، اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ:

1-  بازار میں دیگراشیاء کی طرح انسانی اعضاء کی بھی اعلانیہ ورنہ خفیہ خرید و فروخت شروع ہوجائےگی، جو بلاشبہ انسانی شرافت  کے خلاف ہونے کی وجہ سے بھی ناجائز ہے۔

2-  غربت زدہ لوگ  اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے  کے لیے اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے اعضاء فروخت کرنا شروع کردیں گے۔

3-  مُردوں کی بے حرمتی اوراُن کے ساتھ  ظالمانہ رویّہ شروع ہوجائے گا ،  بالخصوص لاوارث مُردے اپنے بہت سے اعضاء سے محروم ہوکر دنیا سے جایا کریں گے، اور یہ بھی بعید نہیں کہ مال و دولت کے لالچی اور پُجاری ، مدفون لاشوں کو اکھاڑکر اپنی ہوس پوری کرنے لگیں،جیسا کہ مختلف ذرائع سے سننے میں آتا رہتا ہے۔

4-  خدا نخواستہ یہ معاملہ بڑھتا رہا تو صرف اپنی موت مرنے والوں تک ہی یہ سلسلہ محدود نہیں رہے گا، بلکہ اس کام کے لیے  بہت سے معصوم انسانوں کے قتل کا بازار گرم ہوجانا اور اس مقصد  کے لیے اغوا کا شروع ہوجانا ممکن ہے، جو پورے انسانی معاشرے کی تباہی کا اعلان ہے۔

(مستفاد از :انسانی اعضاء کی پیوندکاری، ص: 36، مصدقہ مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ)

    مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے یہ بات واضح ہوگئی کہ  انسانی اعضاء کی پیوند کاری شرعًا  جائز نہیں ہے ؛  لہذا  مذکورہ  شخص کا اپنا گردہ دوسرے شخص کو  دینا جائز نہیں تھا، بلکہ شرعًا گناہ تھا، اور  اس وجہ سے اس کی موت واقع ہوجائے تو یہ شخص عند اللہ  مأجور  نہیں ہوگا، بلکہ گناہ گار  ہوگا۔

حدیث  شریف  میں  ہے: 

"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ جُيُوشَهُ قَالَ: «اخْرُجُوا بِسْمِ اللَّهِ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ، لَاتَغْدِرُوا، وَ لاتَغُلُّوا، وَ لاتُمَثِّلُوا، وَ لاتَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ، وَ لا أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ»."

(مسند احمد،3/218، ط؛دارالحدیث بیروت) 

"فتاوی عا لمگیری" میں ہے:

"وَ أَمَّا مَا يَرْجِعُ إلَى الْوَاهِبِ، فَهُوَ أَنْ يَكُونَ الْوَاهِبُ مِنْ أَهْلِ الْهِبَةِ، وَكَوْنُهُ مِنْ أَهْلِهَا أَنْ يَكُونَ حُرًّا عَاقِلًا بَالِغًا مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ حَتَّى لَوْ كَانَ عَبْدًا أَوْ مُكَاتَبًا أَوْ مُدَبَّرًا أَوْ أُمَّ وَلَدٍ أَوْ مَنْ فِي رَقَبَتِهِ شَيْءٌ مِنْ الرِّقِّ أَوْ كَانَ صَغِيرًا أَوْ مَجْنُونًا أَوْ لَايَكُونُ مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ لَايَصِحُّ، هَكَذَا فِي النِّهَايَةِ. وَ أَمَّا مَا يَرْجِعُ إلَى الْمَوْهُوبِ فَأَنْوَاعٌ، مِنْهَا: أَنْ يَكُونَ مَوْجُودًا وَقْتَ الْهِبَةِ فَلَايَجُوزُ هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَوْجُودٍ وَقْتَ الْعَقْدِ ... و مِنْهَا: أَنْ يَكُونَ مَالًا مُتَقَوِّمًا فَلَاتَجُوزُ هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ أَصْلًا كَالْحُرِّ وَ الْمَيْتَةِ وَ الدَّمِ وَصَيْدِ الْحَرَمِ وَ الْخِنْزِيرِ وَ غَيْرِ ذَلِكَ، وَ لَا هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ مُطْلَقٍ كَأُمِّ الْوَلَدِ وَ الْمُدَبَّرِ الْمُطْلَقِ وَ الْمُكَاتَبِ، وَ لَا هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ مُتَقَوِّمٍ كَالْخَمْرِ، كَذَا فِي الْبَدَائع."

(4 / 374، کتاب الھبة، ط؛رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وَ شَرَائِطُهَا: كَوْنُ الْمُوصِي أَهْلًا لِلتَّمْلِيكِ) فَلَمْ تَجُزْ مِنْ صَغِيرٍ وَمَجْنُونٍ وَمُكَاتَبٍ إلَّا إذَا أَضَافَ لِعِتْقِهِ كَمَا سَيَجِيءُ (وَ عَدَمُ اسْتِغْرَاقِهِ بِالدَّيْنِ) لِتَقَدُّمِهِ عَلَى الْوَصِيَّةِ كَمَا سَيَجِيءُ. (وَ) كَوْنُ (الْمُوصَى لَهُ حَيًّا وَقْتَهَا) تَحْقِيقًا أَوْ تَقْدِيرًا لِيَشْمَلَ الْحَمْلَ الْمُوصَى لَهُ فَافْهَمْهُ، فَإِنَّ بِهِ يَسْقُطُ إيرَادُ الشُّرُنْبُلَالِيُّ (وَ) كَوْنُهُ (غَيْرَ وَارِثٍ) وَقْتَ الْمَوْتِ (وَ لَا قَاتِلٍ) وَ هَلْ يُشْتَرَطُ كَوْنُهُ مَعْلُومًا. قُلْت: نَعَمْ كَمَا ذَكَرَهُ ابْنُ سُلْطَانٍ وَ غَيْرُهُ فِي الْبَابِ الْآتِي (وَ) كَوْنُ (الْمُوصَى بِهِ قَابِلًا لِلتَّمَلُّكِ بَعْدَ مَوْتِ الْمُوصِي)."

(6/649، کتاب الوصایا،سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وَ أَمَّا حُكْمُهَا فَوُجُوبُ الْحِفْظِ عَلَى الْمُودَعِ وَ صَيْرُورَةُ الْمَالِ أَمَانَةً فِي يَدِهِ وَ وُجُوبُ أَدَائِهِ عِنْدَ طَلَبِ مَالِكِهِ، كَذَا فِي الشُّمُنِّيِّ". 

(4/338، کتاب الودیعة، ط؛رشیدیة)

شرح سیر الکبیر میں ہے:

"وَ الْآدَمِيُّ مُحْتَرَمٌ بَعْدَ مَوْتِهِ عَلَى مَا كَانَ عَلَيْهِ فِي حَيَاتِهِ. فَكَمَا يَحْرُمُ التَّدَاوِي بِشَيْءٍ مِنْ الْآدَمِيِّ الْحَيِّ إكْرَامًا لَهُ فَكَذَلِكَ لَايَجُوزُ التَّدَاوِي بِعَظْمِ الْمَيِّتِ. قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِ عَظْمِ الْحَيِّ»." 

(شرح السیر الکبیر(1 /89)

 "فتاوی ہندیہ " میں ہے:

"الِانْتِفَاعُ بِأَجْزَاءِ الْآدَمِيِّ لَمْ يَجُزْ، قِيلَ: لِلنَّجَاسَةِ، وَ قِيلَ: لِلْكَرَامَةِ، هُوَ الصَّحِيحُ، كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ". 

(5 / 354، الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات، ط: رشیدیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144303100205

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں