بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں سارا مال ایک بیٹے کو دے دینا


سوال

میری ماں کو میرے  چچا نے 1650000 دیے،  میرے بھائی کو 1650000 دیے،  ہم  3  بہنوں کو چچا نے 375000 دیے،  امی نے اپنا پیسہ میرے  بھائی کو  دے دیا، ماں  کے  پیسے  پے بیٹیوں کا بھی حق ہوتا ہے، میری  ماں نے غلط کیا ؟

جواب

واضح  رہے  کہ   ہر شخص زندگی میں اپنے مملوکہ مال کا مالک ہوتاہے، اس کی زندگی میں اولاد کا اس میں حصہ نہیں ہوتا، تاہم اگر  وہ اپنی  زندگی میں  اپنا مال خوشی   و رضا سے  اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور  اپنی زندگی میں جو  مال وغیرہ   تقسیم کیا جائے   وہ   میراث نہیں، بلکہ  ہبہ (گفٹ) کہلاتا  ہے،  اور   رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا  ہے، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"و عن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا، قال: «فأرجعه» . و في رواية ... قال: «فاتقوا الله و اعدلوا بين أولادكم»."

(مشکوٰۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:حضرت نعمان  بن بشیرؓ  کے بارے  منقول ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر ؓ) انہیں  رسولِ کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام عطا کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو، ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

لہذا اپنی  زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ   اپنے مال   میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ مال اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کردے یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعًا غیر منصفانہ کہلائے گی۔

         البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول شرعی وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت ودِین داری یا  زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی  اجازت  ہے، لیکن کسی کو بالکل محروم کردینا اور کسی کو دینا درست نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ  میں آپ کی والدہ    کا بیٹیوں کو بالکل محروم کرکے صرف بیٹے کو رقم دینا درست نہیں تھا، تاہم اب چوں کہ وہ مال بیٹے کو  دے دیا ہے تو  اس مال پر بہر حال بیٹے کی ملکیت آچکی  ہے۔ آپ کے بھائی کو چاہیے کہ وہ والدہ کو اخروی مواخذے سے بچانے کے لیے اس رقم میں سے برابر برابر آپ بہنوں کو بھی دے دے، یا کچھ رقم دے کر آپ کو راضی کرلے، یا آپ اپنی والدہ کو معاف کردیں؛ تاکہ وہ آخرت کی پکڑ سے بچ جائیں۔

نیز ملحوظ رہے کہ  آپ کے چچا نے اگر مذکورہ رقم آپ کے والد مرحوم کی میراث میں سے دی تھی تو  مذکورہ تقسیم درست نہیں تھی۔ اگر اس کی تفصیل مطلوب ہو تو والد مرحوم کی وفات کے وقت موجود ورثاء کی تفصیل ارسال کرکے جواب معلوم کرسکتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

" أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة: أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية، ولو كنت مؤثراً أحداً لآثرت النساء على الرجال». رواه سعيد في سننه، وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم». فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا، والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية: ولو وهب شيئاً لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى."

(4/444، کتاب الوقف،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200224

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں