بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں بیٹوں کو بیٹیوں سے زیادہ دینا


سوال

(1): اگر میں اپنے اپنی مرضی  سے  پچاس  لاکھ  روپے فی کس اپنے تینوں بیٹوں کو دوں؛  تاکہ وہ اس روپے سے کاروبار کریں اور دو  بیٹیاں ہیں،ان کو  پچیس لاکھ روپے فی کس دوں گا ،تو کیا یہ میراث شمار ہوگی یا نہیں ؟ میں گناہ گار تو نہیں ہوں گا؟

(2): اگر میں نے رقم تینوں بیٹوں کے ہاتھ میں دی اور دونوں بیٹیوں کو ان کے ہاتھ میں رقم نہیں دی اور کچھ وقت کے بعد میرا انتقال ہوجاتا ہے تو کیا دونوں بیٹیوں کو  پچیس لاکھ  کی رقم فی کس بعد میں ادا کردی جائے اور وراثت کا کوئی حساب و کتاب نہیں کیا جائےتو کیا  اس طرح سے وراثت ادا ہوجائے گی؟

(3) : میں نے جو رقم تینوں بیٹوں کو دی اس سے جو کاروبار کیا اس میں کافی زیادہ ترقی ہوئی ،اثاثے بنائے اور ان اثاثے کو تینوں بیٹوں نے اپنے نام پر رکھا۔ ان اثاثوں میں دونوں بیٹیوں کا شرعی حصہ کیا کوئی بنتا ہے؟

جواب

1۔    اگر کوئی شخص زندگی میں اپنی جائیداد  اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہے تو یہ شرعاً ہبہ ہے، وراثت نہیں، اس لیے کہ وراثت مرنے کے بعد ہی تقسیم ہوتی ہے  اور   اس   ہبہ کے لیے شریعتِ مطہرہ کی تعلیمات یہ ہیں کہ وہ تمام بیٹوں  اور بیٹیوں میں برابری کرے،  کسی معتبر وجہ کے بغیر کسی کو کم کسی کو زیادہ نہ دے  اور  نہ ہی بیٹے اور بیٹیوں میں فرق کرے،  اگر بلا وجہ بیٹے اور بیٹیوں میں سے کسی کو  کم دے گا، یا محروم کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔تاہم   اگر اولاد میں سے کسی بیٹے یا بیٹی کو نیکی، خدمت، محتاجی یا کسی اور وجہ سے  زیادہ دے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن کسی ایک کو بالکل محروم کرنا درست نہیں ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  اگر سائل اپنی زندگی میں  اپنی مکمل  جائیداد  یاکچھ جائیداد اپنی  اولاد  میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ جتنی جائیداد بیٹوں کو دیں؛ بیٹیوں کو بھی اسی قدر   ہدیہ (گفٹ) کریں، ورنہ  گناہ گار ہوں گے، البتہ اگر سائل بیٹوں کو مذکورہ رقم یہ کہہ کر دے گا کہ یہ میراث میں سےتمہارا حصہ ہے، موت کے بعد میری جائیداد میں سے تمہیں حصہ نہیں ملے گا اور وہ اسے قبول کرلیں تو   سائل کی وفات کے بعد اس کی جائیداد میں بیٹوں کا حصہ نہیں ہوگا۔

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"و عن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»".

(مشکاة المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:حضرت نعمان بن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ   …  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

2۔  جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ  ہدیہ تام  ہونے  کے لیے قبضے میں دینا شرط ہے، لہٰذ اگر سائل اپنی بیٹیوں کو ان کے حصے کی رقم پر قبضہ نہیں دیں گے، تو بیٹیاں اس رقم کی مالک نہیں ہوں گی، بلکہ سائل ہی اس کے بدستور مالک رہیں گے  ، اور   سائل کے مرنے کے بعد بیٹیوں کو پچیس لاکھ نہیں ملیں گے، بلکہ وراثت میں اس وقت موجود ترکہ  میں ان کا جتنا حصہ بنتا ہوگا، ان کو وہی ملے گا۔اس صورت میں بیٹوں کو ہدیہ دینے کے بعد  بیٹیوں کو محروم  کرنے کا گناہ ہوگا۔تاہم اگر مرنے سے پہلے بیٹیوں  کو بھی بیٹوں کے برابر رقم کا قبضہ دے کر مالک بنا دیا جائے ، تو  اس نا انصافی کے گناہ سے بچ جائیں گے۔

باقی سائل کی وراثت میں وہی کچھ تقسیم ہوگا جو ان کی موت کے وقت ان کی ملکیت میں موجود ہوگا۔ 

3۔  بیٹوں کو جس رقم کا مالک بنادیا گیا، اس سے وہ جو کچھ منافع حاصل کریں گے اس کے مالک وہ ہی ہوں گے۔ بیٹیوں کا اس میں کچھ حصہ نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم".

(رد المحتار5/ 696ط:سعید)

فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:

"و علی جواب المتأخرین لا بأس بأن یعطي من أولاده من کان متأدباً".

(ج: ۳ ؍ ۴۶۲، ط:زکریا هند)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل".

 (رد المحتار5/ 690ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200102

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں