بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں بیٹے کو زائد حصہ دینا


سوال

سوال ہے کہ میں ایک سرکاری ادارہ سے ریٹائرڈ ہوں، ساری عمر اللہ نے بہترین رزق حلال سے نوازا،بایں ہمہ فضل الہی سے صوم و صلوٰۃ  کی بھی پابندی ہےاور حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کر چکا ہوں، خواہش ہے کہ اپنی زندگی میں وراثت بھی احکامات ربانی کے مطابق تقسیم کر لوں۔ تفصیل عرض ہے:اللہ نے مجھے چار بیٹیوں اور ایک اولاد نرینہ سے نوازا، سب شادی شدہ ہیں، بیٹیاں اپنے گھروں میں آبادہیں، اور کوئی مالی مسائل نہیں؛ البتہ بیٹا بے روزگار اور غیر ہنرمند میرے پاس گھر میں مقیم ہے، اس کی دو بیٹیاں ہیں، جس میں سے ایک جگر کے لاعلاج مرض میں مبتلا ہے، جائيداد میں یہ گھر جس میں ہم مقیم ہیں کے علاوہ مزید اندازہ ایک کروڑ روپے مالیت کی زمین بھی ہے، چاہتا ہوں اس زمین کو بیچ کرایک ایسا مکان بیٹے کے نام خرید لیں جس کے کرائے سے اس کا  گزر بسر اور اس کی بیٹی کا علاج جاری رہے، بیٹیوں کو اندازہ پانچ یا چھ لاکھ اپنی خوشی سے دےدوں، واضح رہے کے مکان خاندانی روایت کے مطابق بیٹے کے حصہ میں ہی ہوگا،میری اپنی بہنوں نے بھی اپنا حصہ مجھے دیا اور میری بیٹیوں کو بھی اس مکان پر کوئی اعتراض نہیں، محترمی لمبی تمہید پر معذرت، لیکن جب تک بات مکمل آپ کے علم میں نہ ہو میرے دل میں کسک رہے گی، یعنی میں بیمار پوتی اور بیروزگار بیٹے کو جائیداد میں زائد حصہ دے کر حدود اللہ میں مداخلت کے گناہ کا حق دار تو نہیں ٹھہرایا جاؤں گا،اللہ مجھے بہترین فیصلہ کرنے کی قوت دے۔ 

جواب

واضح رہے ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف  کرنے سے منع کرے ،نیز والد ین کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں   کوئی حق  و حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتا،  تاہم اگر صاحبِ جائیداد اپنی  زندگی میں  اپنی جائیداد  خوشی  ورضا سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

اور صاحبِ جائیداد کی طرف سے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ   اپنی جائیداد میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ مال اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی۔البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت  ودین داری یا غریب ہونے کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں سائل  ذکر کردہ تقسیمی خاکہ کے مطابق   مکان بیٹے کو مالک بنائے اور باقی ایک کروڑ کی زمین کی مالیت بھی بیٹے کو دے اور بیٹیوں کو صرف پانچ پانچ لاکھ دیں ،یہ عدل وانصاف کے تقاضے کے خلاف ہونے کی وجہ سے درست نہیں،  اگر اپنے بیٹے کو بے روزگار ہونے کی وجہ سے اور بیمار پوتی کے لیے اپنی جائیداد میں کچھ  زائد حصہ دیں تو شرعا ً ایسا کرنا جائز ہے ،اس سے سائل پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔اسی طرح پوتیوں کے لیے ایک تہائی  ملکیت تک کی وصیت کرنے  یا ہدیہ(قبضہ وتصرف کے ساتھ )کرنے کی گنجائش ہے ،اس سے زیادہ دینے کے لیے بیٹیوں کی خوش دلی سے رضامندی ضروری ہوگی ،ہاں اگر بیٹیاں خوش دلی سے اجازت دیں تو پھر اس کی گنجائش ہے ۔

حدیث میں ہے :

''وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم».''

(باب العطایا،ج:۱،ص:۲۶۱،قدیمی)

البحر الرائق میں ہے :

"(قوله فروع) ‌يكره ‌تفضيل ‌بعض ‌الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين."

(کتاب الہبۃ،ھبۃ الاب لطفلہ،ج:۷،ص:۲۸۸،دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ  اعلم


فتوی نمبر : 144311100845

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں