بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں اپنے لیے قبر کی جگہ مختص کرنے کا حکم


سوال

کیا کوئی شخص یا اس کے گھر والے مرنے سے پہلے قبرستان میں اپنی مرضی سے دفن ہونے کے لیے جگہ مقرر کر سکتا ہے،  کہ مجھے میرے فلاں قبر والے کے ساتھ ہی دفن کیا جائے میرا مطلب ہے کہ قبرستان میں مرنے سے پہلے جگہ پر قبضہ کرنا کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کسی شخص کے لیے مرنے سے پہلے اپنی  زندگی میں اپنے لیے ذاتی زمین یا ذاتی قبرستان میں  قبر کے لیے جگہ مختص   کرنا جائز ہے،البتہ وقف قبرستان میں قبر کے لیے جگہ گھیرنا یا مختص کرنا  جائز نہیں ہے، کیوں کہ وہ شخصی جائیداد نہیں ہے، اسی طرح اگر  کوئی  زمین سرکاری طور پر اس علاقہ والوں کے لیے مشترکہ طور پر قبرستان کے لیے مختص کی گئی ہے  ، تو اس میں بھی کسی فرد کے لیے قبل از وقت کسی خاص جگہ کو اپنے لیے مختص کرنا جائز نہیں ہے، اس لیےکہ  اس میں عام لوگوں کا حق متعلق ہے، اور اگر زمین چند افراد کی مملوکہ ہو تو ان سب کی اجازت سے اس میں قبر کے لیے جگہ مختص کرنا جائز ہے ، بلا اجازت جائز نہیں  ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ويحفر قبرا لنفسه، وقيل يكره؛ والذي ينبغي أن لا يكره تهيئة نحو الكفن بخلاف القبر...(قوله: ويحفر قبرا لنفسه) في بعض النسخ: وبحفر قبر لنفسه، على أن لفظة حفر مصدر مجرور بالباء مضاف إلى قبر: أي ولا بأس به. وفي التتارخانية: لا بأس به، ويؤجر عليه، هكذا عمل عمر بن عبد العزيز والربيع بن خيثم وغيرهما. اهـ. (قوله والذي ينبغي إلخ) كذا قوله في شرح المنية، وقال لأن الحاجة إليه متحققة غالبا، بخلاف القبر {وما تدري نفس بأي أرض تموت} [لقمان: 34]."

 (‌‌كتاب الصلوة، ‌‌باب صلاة الجنازة، مطلب في زيارة القبور، ج:2، ص:244، ط:سعيد)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح  میں ہے:

"ومن حفر قبرا ‌قبل ‌موته فلا بأس به ويؤجر عليه هكذا عمل عمر بن عبد العزيز والربيع بن خثعم وغيرهم "ولا يخرج منه...أن يحفر لنفسه قبرا فقال لا تعدد لنفسك قبرا وأعدد نفسك للقبر قال البرهان الحلبي والذي ينبغي أنه لا يكره تهيئة نحو الكفن لأن الحاجة إليه تتحقق غالبا بخلاف القبر لقوله تعالى: {وما تدري نفس بأي أرض تموت} [لقمان: 34]."

 (‌‌‌‌باب أحكام الجنائز، فصل في حملها ودفنها، ص:615،616،  ط:دار الكتب العلمية)

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں ہے:

"لأن ‌المقابر ‌وقف من أوقاف المسلمين لدفن موتاهم لا يجوز لأحد أن يملكها، فإذا درست واستغنى عن الدفن فيها جاز صرفها إلى المسجد، لأن المسجد أيضا ‌وقف من أوقاف المسلمين لا يجوز تملكه لأحد، فمعناهما على هذا واحد."

 (كتاب الصلوة، باب هل تنبش قبور مشركي الجاهلية ويتخذ مكانها مساجد، ج:4، ص:179، ط:دار إحياء التراث العربي)

امداد الاحکام میں ایک سوال کے جواب میں تحریر ہے:

"الجواب:  یہ صورت اپنی مملوک زمین میں تو جائز ہے، مگر ایسی زمین میں جس کے ساتھ حقِ عامّہ متعلق ہو جائز نہیں؛ کیوں کہ جس زمین میں حقِ عامّہ متعلق ہو اس میں کسی خاص حصّے کا تعین قبل از وقت کسی کو حق نہیں، البتہ اگر سائل اس زمین میں سے کچھ قلعہ اپنے خاندان کے دفن کے لیے سرکار سے خریدے تو پھر اس پر اس کا اونچا کرنا جائز ہے۔"

(باب احکام المقابر، ج:3، ص:293، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

کفن زمزم  سے دھو کر رکھنا، اور اپنی  قبر  کی  جگہ مخصوص کرنا:

الجواب:دونوں باتیں جائز ہیں، بدعت نہیں ہے، مگر ذاتی ملکیت کی جگہ میں بنائی جائے، وقف کی جگہ کو  روکنا صحیح نہیں ہے۔"

(میت کے احکام، ج:4، ص:297، ط:مکتبہ لدھیانوی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101630

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں