بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں میراث تقسیم کرنا اوربیٹے کی میراث سے ملنے والے حصہ سے بہو کو محروم کرنا


سوال

1- میرے پاس جو مکان، دکان اور زیور ہے اسے میں اپنے دو بیٹے اور ایک بیٹی میں تقسیم کرنا چاہتی ہوں، اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟

2- میرا بڑا بیٹا اور بیٹی باہر (ملک)رہتے ہیں ،(میں نے)چھوٹے بیٹے کی فیملی کو رہنے کے لیے نیچے کا گھر دیا ہے،میرے مرنےکے بعد میرے چھوٹے بیٹے کو جو حصہ ملے گا،میں چاہتی ہوں کہ میرے بعد یا خدانخواستہ میرے چھوٹے بیٹے کوکچھ ہو جاتا ہے تو میری چھوٹی بہو کو اس میں کچھ نہ ملے اور اس کے بچوں کو وہ حصہ چلا جائے،اگر اس وقت بچے 18 سال سے کم ہو تو میرے بڑابیٹا یا بیٹی اس حصہ کے سرپرست ہوں،یہ سب میں اس لیے کرنا چاہتی ہوں کہ میرے چھوٹی بہو سے اختلافات ہیں، تو کیا یہ میں اپنی وصیت میں لکھوا سکتی ہوں؟

جواب

1-واضح رہے کہ زندگی میں اولاد کے درمیان  جائیداد تقسیم کرنا یا ان میں سے کسی کو اس کاحصہ دینا میراث نہیں کہلاتا، بلکہ یہ ہبہ (گفٹ) ہے، اور اس پر ہبہ کے احکام لاگو ہوتے ہیں، میراث  میت کا ترکہ ہوتاہے جو آدمی کی موت کے بعد  ہی تقسیم کیا جاتاہے۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں سائلہ کو چاہیے  کہ وہ اپنی جائیداد میں سے اپنے لیے بقدرِ ضرورت رکھنے کے بعد جو حصہ اولاد میں تقسیم کرنا چاہے وہ  سب اولاد میں برابر برابر تقسیم کرلے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا بیٹی کو بھی دے،البتہ کسی ایک کو اس کی دین داری ،خدمت  یاضرورت  کی بنیاد پر کچھ زیادہ بھی دیا جاسکتاہے۔

2-صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے بیٹے کی میراث میں اس کی بیوی کا بھی حق ہوگا، اگر وہ اس وقت زندہ ہوگی،لہذا  سائلہ کا ایسی وصیت کرنا جس میں کسی ہونے والے  وارث کو اس کے شرعی حصے سے محروم رکھا جائے درست نہیں ہے۔

نوٹ: یہ جواب اس صورت میں ہے جب مکان اور دکان دونوں سائلہ  کی ذاتی ملکیت ہو، اور اگر ذاتی نہ ہو بلکہ شوہر کے ترکہ کی ہو تو پھر جواب الگ ہوگا، صحیح وضاحت دینے کے بعد دوبارہ جواب دیا جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك.... لا بأس به إذا لم يقصدبه الإضرار وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي الابن."

(کتاب الوقف، مطلب فی المصادقۃ  علی النظر، ج:4، ص:444، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى."

(قوله: وعلیه الفتوی) أي قول أبي یوسف من أن التنصیف بین الذکر والأنثی أفضل من التثلیث الذي هو قول محمد رملي."

(کتاب الہبۃ، ج:5، ص:696، ط:سعید)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين".

(مشكاة المصابيح،باب الغصب والعاریة، ج:1، ص:254، ط: قدیمی)

ترجمہ: "حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص(کسی کی) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔"

وفیہ ایضاً:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة»، رواه ابن ماجه".

(باب الوصایا، الفصل الثالث، ج:1، ص:266، ط: قدیمی)

ترجمہ :"حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا، (یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102102

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں