بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی بھر جھوٹ نہ بولنے کی قسم کھانا


سوال

 گزارش ہے کہ میں نے یہ قسم کھائی تھی کہ جب بھی میں جھوٹ بولوں تو اس کے بدلے میں دس دن روزہ رکھوں گا اور ایک ہزار روپے جرمانہ بھی ادا کروں گا،لیکن اب میرے لیے بہت زیادہ مشکل ہوگیا ہے، کیو ں کہ انسان خطاؤں کا پتلا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ اب اگر میں نے جھوٹ بولا تو مجھ پر ایک بار یہ چیزیں لازم ہوں گی یا بار بار ؟کیوں کہ میں نے تو زندگی بھر کی نیت کی تھی، اب میں بہت زیادہ پریشان ہو ں،آ پ حضرات میری راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب بھی اور جتنی دفعہ آپ جھوٹ بولیں گےہر دفعہ دس دن روزے اور ایک ہزار روپے فقیروں کو دینا لازم ہوگا،  جھوٹ بولنااور نہ بولنا انسان کے اختیار میں ہے،آپ کو چاہیے کہ اس گناہ سےاجتناب کریں۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"إذا نذر أن يصوم كل خميس يأتي عليه فأفطر خميسا واحدا فعليه قضاؤه كذا في المحيط."

‌‌‌‌(كتاب الصوم،الباب السادس في النذر،ج:1،ص:209،ط:رشيديه)

و فیہ ایضاً:

"ألفاظ الشرط إن وإذا وإذما وكل وكلما ومتى ومتى ما ففي هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت اليمين وانتهت لأنها تقتضي العموم والتكرار فبوجود الفعل مرة تم الشرط وانحلت اليمين فلا يتحقق الحنث بعده إلا في كلما لأنها توجب عموم الأفعال فإذا كان الجزاء الطلاق والشرط بكلمة كلما يتكرر الطلاق بتكرار الحنث حتى يستوفي طلاق الملك الذي حلف عليه فإن تزوجها بعد زوج آخر وتكرر الشرط لم يحنث عندنا، كذا في الكافي."

(‌‌كتاب الطلاق،الفصل الأول في ألفاظ الشرط،ج:1،ص:415،ط:رشیدیه)

ہدایہ میں ہے:

" ومن ‌نذر نذرا مطلقا فعليه الوفاء " لقوله عليه الصلاة والسلام: " من ‌نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى " " وإن علق النذر بشرط فوجد الشرط فعليه الوفاء بنفس النذر " لإطلاق الحديث ولأن المعلق بشرط كالمنجز عنده " وعن أبي حنيفة رحمه الله أنه رجع عنه وقال إذا قال إن فعلت كذا فعلي حجة أو صوم سنة أو صدقة ما أملكه أجزأه من ذلك كفارة يمين وهو قول محمد رحمه الله."

(‌‌‌‌كتاب الأيمان،فصل في الكفارة،ج:2،ص:321،ط:دار احياء التراث العربي - بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403100893

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں