بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں بیوی کو مکان گفٹ کرنا


سوال

ہمارے ایک خالو ہیں، جن کا انتقال بیس سال پہلے ہو چکا ہے، اُن کا ایک مکان تھا، وہ انہوں نے خالہ کو گفٹ کر دیا تھا، پھر ان کا انتقال ہو گیا، ان کی ایک بہن بھی تھی، ان کا بھی انتقال ہو گیا،  اب سوال یہ ہے کہ اس مکان پر میری خالہ کا حق ہے؟ جب کہ خالو کا اور کوئی بھائی بہن وغیرہ نہیں، البتہ بہن کے بچے ہیں۔

جواب

واضح رہے کسی بھی چیز کو ہبہ (گفٹ) کرنے کے لیے ضروری ہے  کہ واہِب (ہبہ کرنے والا) موہوبہ چیز (جس چیز کا ہبہ کیا جارہاہے)  کو موہوب لہ (جس کو ہبہ کررہا ہے) کے نام کرنے کے ساتھ اس کا مکمل  قبضہ اور تصرف بھی دے دے، اور ہبہ کے وقت موہوبہ چیز سے اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کردے، صرف نام کردینے سے  شرعاً ہبہ درست نہیں ہوتا، نیز ہر چیز کا قبضہ اسی چیز کے حساب سے ہوتا ہے،   مکان کے قبضہ کے تام ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ  واہب (مالک) اپنا سامان اس میں سے نکال دے اور خود بھی کچھ  وقت کے لیے اس میں سے نکل جائے، پھر اگر خود بھی مکان میں رہنا چاہتا ہے تو موہوب لہ کی اجازت سے رہ سکتاہے،   اس طرح موہوبہ چیز موہوب لہ کے لیے گفٹ ہوجائے گا، اور واہب کی ملکیت ختم ہوجائے گی۔

بصورتِ مسئولہ اگر شوہر نے مذکورہ طریقہ کے مطابق مکان اپنی بیوی  کے نام کیا تھا، یعنی مکان مکمل طور پر  قبضہ میں دیا، اور خود اپنے سامان سمیت کسی اور مکان میں رہائش رکھی، یا اسی مکان میں رہے، لیکن مذکورہ طریقہ کے مطابق تخلیہ کیا تھا (یعنی مکان سے نکل کر بیوی کے حوالے کیا تھا)، تو مکان بیوی  کی ملکیت ہو گا اور اس مکان میں بیوی کے علاوہ کوئی دوسرا حق دار نہ ہو گا۔

لیکن اگرمکان صرف نام کیا تھا اور مذکورہ طریقے کے مطابق قبضہ نہیں دیا تھا تو  یہ مکان شوہر کی ملکیت میں رہا اور اُن کے انتقال کے بعد اُن کے تمام ورثاء میں تقسیم ہو گا جس میں بیوہ بھی شامل ہو گی۔

باقی سائل کے خالو کے ترکہ میں شمار کرکے ورثا کے حصوں کا تناسب کیا ہوگا، اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ معلوم ہو کہ :

  1. خالو کی بہن  کا انتقال خالو سے پہلے ہوا  یا بعد میں؟ اگرچہ آپ نے سوال میں اس کا ذکر کیا ہے، لیکن ایک گونہ اس میں ابہام باقی ہے۔
  2. اگر بعد میں ہوا تو ان کے شوہر حیات ہیں یا نہیں؟ نیز خالو کی بہن کے بچے کتنے ہیں؟

ان باتوں کی وضاحت کر دیں تو جواب دے دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ اولاد کے نہ ہونے کی صورت میں بیوہ کو چوتھائی  حصہ ملتا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 792):

"باب توريث ذوي الأرحام (هو كل قريب ليس بذي سهم ولا عصبة) فهو قسم ثالث حينئذ (ولا يرث مع ذي سهم ولا عصبة سوى الزوجين) لعدم الرد عليهما (فيأخذ المنفرد جميع المال)."

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144209200424

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں