بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں اپنی زمین تقسیم کرنا اور کچھ حصہ مسجد کو دینا


سوال

ایک شخص ہے، جن کی ملکیت میں خاندانی وراثتی زمین ہے ٹوٹل 47 کنال، ان کے چار بیٹے اور چار بیٹیاں  ہیں، اہلیہ وفات پاچکی ہے، وہ اپنے بچوں میں وراثت تقسیم کر رہے  ہیں،  مجھے پوچھنا یہ ہے کہ والد صاحب اپنے شرعی حق کے علاوہ (اپنا حصہ لینے کے بعد )اس زمین میں سے 4 کنال زمین مسجد کو وقف کر رہے   ہیں۔

1.کیا یہ 4 کنال زمین وہ مسجد کے لیے وقف کرسکتے ہیں ؟

2 . جس مسجد کو وہ چار کنال زمین وقف کر رہے ہیں  وہ ان کی خود کی ملکیت ہے اور ان کی وصیت کے مطابق وہ مسجد ان کے بعد ایک بیٹے کے نام پر منتقل ہوجائے گی۔

3.اس زمین کے درمیان بچوں کے دادا دادی کی قبریں بھی ہیں(یعنی وراثت تقسیم کرنے والے کی والدہ والد )، وہ اس زمین میں سے 2 کنال اس کو راستہ دے رہے ہے حالاں کہ قبروں کی بائیں جانب 100 فٹ پر راستہ موجود ہے اور وہاں سے راستہ دیا جاسکتا ہے، لیکن والد صاحب  روڈ سے لمبا راستہ نکال رہے ہیں،  جو کل 9000 فٹ بنتا ہے، کیا یہ جائز ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ ہر انسان اپنی زندگی میں اپنی جائے داد کا خود مالک ہوتا ہے اور میں اپنی مرضی سے تصرف بھی کر سکتا ہے، زندگی میں جائے داد واموال کی تقسیم شرعاً لازم نہیں اورنہ ہی  اولاد میں سے کسی کو جائے داد کی تقسیم کے مطالبہ کا  شرعاًحق ہے ،   تاہم اگرکوئی شخص  اپنی جائے داد اپنی مرضی و خوشی  سے اپنی زندگی میں  تقسیم کرنا چاہتا ہے تو اپنی کل جائے داد میں سے جتنا چاہے اپنے اور اپنی اہلیہ  کے لیے رکھ لے ۔ بقیہ جائے داد کو اپنی اولاد میں برابر   تقسیم کردے ،یعنی  جتنا حصہ ایک بیٹے کو دیں اتنا ہی حصہ ہر ایک  بیٹی کوبھی  دیں، کسی کو کم یا زیادہ دینا درست نہیں،البتہ اگر اولاد میں سے کوئی زیادہ خدمت گزار ہو، یا دین دار زیادہ ہو تو اس کو کچھ زیادہ بھی دے سکتے ہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ مذکورہ شخص اپنی خوشی سے  اپنی جائے داد اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے، اس  میں کوئی حرج نہیں، پھر اگر وہ اس میں سے کچھ حصہ مسجد کے لیے وقف کرنا چاہتا ہے تو ایسا کرنا بھی اُن کے لیے جائز ہے، اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔

لیکن سمجھنا چاہیے کہ جب کوئی جگہ مسجد کے لیے وقف کر دی جائے تو وقف کرنے کے بعد وہ جگہ واقف (وقف کرنے والے) کی ملکیت سے نکل جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہے، لہذا مذکورہ شخص کا یہ کہنا کہ  اس کے انتقال کے بعد یہ مسجد اس کے ایک بیٹے کے نام منتقل ہو جائے گی، درست نہیں،تاہم اگر مراد یہ ہو کہ اس مسجد کا متولی فلاں بیٹا ہو گا تو یہ درست ہے۔

باقی زمین کے مالک چوں کہ وہ خود ہیں، اس لیے اگر وہ راستے دینے سے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو وہ  با اختیار ہیں،   کر سکتے ہیں۔

وفي البحر الرائق لابن  نجیم:

"وقال أبو يوسف: هو مسجد أبدًا إلى قيام الساعة لايعود ميراثًا ولايجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا، وهو الفتوى، كذا في الحاوي القدسي. وفي المجتبى: وأكثر المشايخ على قول أبي يوسف، ورجح في فتح القدير قول أبي يوسف بأنه الأوجه ... الخ"

(کتاب الوقف ،فصل لما اختص المسجد، ج:۵، ص:۲۷۲،ط:دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201861

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں