بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زنا سے توبہ کرنے کے بعد شادی کا حکم، شادی سے قبل ہونے والا گناہ بیوی کو بتانا ضروری نہیں ہے


سوال

1۔ زید ایک زانی مرد ہے جو کی لاعلمی میں اِس گناہ کا مرتکب ہوا تھا اب اپنے گناہ سے سچے پکّے دِل سے،  ندامت کے ساتھ توبہ تائب بھی ہو چکا ہے ۔

جس لڑکی کے ساتھ زنا کا مرتکب ہوا تھا کافی ضد کے باوجود  زید کے گھر  والے  اُس لڑکی سے شادی کرنے کے لیے   تیار نہیں ہیں،  اور وہ لڑکی بھی ابھی تیار نہیں ہے، بولتی ہے کہ 3/2 سال بعد شادی کے بارے میں گھر پر بات کریں گے ، لیکِن زید سوچتا ہے جلد از جلد کسی نیک لڑکی سے نکاح کرے تاکہ نیکوں کی صحبت میں رہ کر زندگی بھر گناہ سے بچنا آسان رہے اور پاکدامنی کی زندگی گزار سکے۔

زید کے گھر والے ایک لڑکی سے زید کا رشتہ طے کر چکے ہیں جو کہ  نیک اور دیندار ہے پاکدامن ہے ۔

یہ نکاح کرنا کیسا رہے گا جائز یا ناجائز؟  اگر جائز  ہوگا تو صحتِ نکاح پر کوئی اثر تو نہیں  پڑے گا یا زندگی بھر بنا نکاح کے رہے اس میں گناہ تو نہیں  ہوگا ؟

2۔  کیا نکاح سے پہلے زید اپنے ماضی کے بارے میں لڑکی کو بتائے یا زندگی بھر  چھُپا ئے  رکھے۔

آپ جلد از جلد وضاحت کے ساتھ پورا جواب دے دیجیے تاکہ نکاح کی بات آگے بڑھ پائے ۔

جواب

1۔صورت مسئولہ میں  صدق دل سے توبہ کرنے کے بعد جلد  از جلد زید  کسی پاکدامن خاتون سے نکاح کرلے، نکاح میں ہر گز تاخیرنہ کرے،پس  زید کے گھر والے جس لڑکی سے اس کا نکاح کرنا چاہتے ہیں، اگر ان دونوں کے درمیان محرمیت ( رضاعی بہن، حرمت مصاہرت وغیرہ)  کا کوئی رشتہ نہ ہو  تو زید کے لئے مذکورہ لڑکی سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔

2۔ اللہ رب العزت نے جب گناہ پر پردہ رکھا ہوا ہے، تو ایسی صورت میں   اپنے  گناہ کا تذکرہ نہ کیا جائے۔کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کے اِفشا  سے منع فرمایا ہے، اور اپنے گناہوں کا پرچار کرنے والوں کے بارے میں سخت وعید سنائی ہے۔

المستدرك على الصحيحين للحاكم میں ہے:

"٧٦١٥ - حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا بحر بن نصر بن سابق الخولاني، ثنا أسد بن موسى، ثنا أنس بن عياض، عن يحيى بن سعيد، حدثني عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر، رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام بعد أن رجم الأسلمي فقال: «اجتنبوا هذه القاذورة التي نهى الله عنها فمن ألم فليستتر بستر الله وليتب إلى الله فإنه من يبدلنا صفحته نقم عليه كتاب الله عز وجل» هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه."

( كتاب التوبة والإنابة، ٤ / ٢٧٢، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

ترجمہ:"حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماعز اسلمی کو رجم کرنے کے بعد  کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ:  ان گندیوں (زنا) سے بچتے رہو  جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے، پس  کسی سے ارتکاب ہوجائے تو اسے چاہیے کہ  اسے اللہ کے پردے میں  چھپائے رکھے،  اور اللہ کے حضور توبہ کرے، اس لیے کہ جو اپنا صفحہ ( گناہ) ہمارے سامنے ظاہر کرے گا، تو ہم اس پر ہم اللہ کی کتاب کے فیصلہ کے مطابق حد قائم کریں گے۔"

صحیح البخاری میں ہے:

٦٠٦٩- "حدثنا عبد العزيز بن عبد الله: حدثنا إبراهيم بن جعد، عن ابن أخي ابن شهاب، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله قال: سمعت أبا هريرة يقول:

سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: كل أمتي معافى إلا المجاهرين، وإن من المجاهرة أن يعمل الرجل بالليل عملا، ثم يصبح وقد ستره الله، فيقول: يا فلان، عملت البارحة كذا وكذا، وقد بات يستره ربه، ويصبح يكشف ستر الله عنه".

( كتاب الادب، باب ستر المؤمن على نفسه، ٨ / ٢٠، ط: السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر)

ترجمہ:"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ: " میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوائے گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے اور گناہوں کو کھلم کھلا کرنے میں  یہ  بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا) کام کرے اور اس کے باوجود کہ اللہ نے اس کے گناہ کو چھپائے رکھا تھا، مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا"۔

منار القاري شرح مختصر صحيح البخاري میں ہے:

"قال الحافظ: والمعنى، لكن المجاهرون بالمعاصي لايعافون، والمجاهر الفاسق المعلن بفسقه الذي يأتي بالفاحشة ثم يشيعها بين الناس تفاخرا وتهورا ووقاحة. " وإن من المجانة " أي الوقاحة والاستهتار بالدين والاستخفاف بحدود الله " أن يعمل الرجل بالليل " أي معصية " ثم يصبح وقد ستره الله، فيقول: يا فلان عملت البارحة كذا وكذا " أي يحدث إخوان السوء من أصدقائه بأنه فعل المعصية الفلانية "وقد بات يستره ربه، ويصبح يكشف ستر الله عنه" وذلك لأنه لا يريد الستر، وإنما يريد الفضيحة، حيث يراها في نظره مفخرة ومباهاة.

فقه الحديث: دل هذا الحديث على ما يأتي: أولا: أنه يجب على من ابتلي بمعصية أن يستر على نفسه، وهو ما ترجم له البخاري، وقد جاء الأمر الصريح بالستر في حديث آخر، فقد روى ابن عمر عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: " اجتنبوا هذه القاذورات التي نهى الله عنها، فمن ألم بشيء منها فليستتر بستر الله " أخرجه الحاكم، كما أخرجه مالك مرسلا من حديث زيد بن أسلم. ويدل الحديث على أن ارتكاب المعصية مع سترها أهون وأخف من المجاهرة بها، لأن المعصية مع الستر تقبل العفو الإلهي، أما مع المجاهرة فإنه لا يعفى عنها، لقوله - صلى الله عليه وسلم - " كل أمتي معافى إلا المجاهرون " وذلك لأن المجاهرة وقاحة وجرأة وانتهاك لحدود الله، واستخفاف بالشريعة كما قال صلى الله عليه وسلم: " وإن من المجانة أن يعمل الرجل بالليل عملا، ثم يصبح وقد ستره الله فيقول: يا فلان عملت البارحة كذا " قال ابن بطال في الجهر بالمعصية استخفاف بحق الله ورسوله."

( كتاب الادب، باب ستر المؤمن على نفسه، ٥ / ٢٥١ - ٢٥٢، ط: مكتبة دار البيان، دمشق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102005

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں