بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زنا سے توبہ کیسے کرے؟


سوال

کسی ایک شخص سے اپنی بہن کے ساتھ زنا ہوگیا ہے، بہن شادی شدہ ہے اور بھائی شادی شدہ نہیں ہے،  اب ان پر شریعت کی حد نافذ ہوگی یانہیں؟

اب تو اسلامی حکومت بھی نہیں ہے اور اب کیا کریں؟ وہ شرم سے ڈوب گئے ہیں اب ان کو اللہ تعالیٰ معاف کرے گا کہ  نہیں اور قیامت میں کیا ہوگا ان کے ساتھ نیز اللہ تعالیٰ سے معافی کاطریقہ بھی بتائیں۔

جواب

بلا شبہ زنا گناہ کبیرہ ہے، اور اپنی بہن سے زنا نہایت ہی قبیح و بد ترین عمل ہے، جس پر صدق دل سے دونوں کو اللہ رب العزت کے حضور توبہ کرنا  ضروری  ہے، توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ غفور رحیم ذات کے سامنے  اپنے کیے پر نادم و شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے فوری طور پر اس گناہ کو  ترک کردیا جائے، اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کیا جائے۔

نیز مذکورہ بہن بھائی آئندہ خلوت میں اکیلے ہرگز نہ ملیں،  اور اپنے کردہ گناہ کا ہرگز کسی کے سامنے اظہار نہ کریں،   اللہ رب العزت نے جب تک پردہ کر رکھا ہے، اس وقت تک کردہ گناہ کا  خود سے  اظہار  کرنا شرعًا ممنوع ہے۔

نیز کسی فرد  کو اپنے اوپر حد جاری کرنے کا شرعًا اختیار نہیں، اسی طرح کسی  جماعت یا کنبہ کو کسی فرد پر حد جاری کرنے کا شرعًا  اختیار نہیں، لہذا  صدق دل سے توبہ و استغفار  کرتے رہیں، اور اپنے کردہ گناہ کا ہرگز کسی کے سامنے اظہار  نہ کریں،  باری تعالٰی کا ارشاد ہے کہ : "یقینا اللہ اپنے ساتھ شرک کیے جانے کو نہیں بخشتا، اور شرک کے علاوہ جسے چاہے بخش دیتا ہے"،  اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ:" گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے کہ جیسے اس کا گناہ ہی نہیں"، لہذا  مایوس نہ ہوں، سچے دل سے توبہ کرنے کے بعد بخشش کا یقین رکھیں۔

صحیح البخاريمیں ہے:

"٦٠٦٩ - حدثنا عبد العزيز بن عبد الله: حدثنا إبراهيم بن جعد، عن ابن أخي ابن شهاب، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله قال: سمعت أبا هريرة يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "كل أمتي معافى إلا المجاهرين، وإن من المجاهرة أن يعمل الرجل بالليل عملا، ثم يصبح وقد ستره الله، فيقول: يا فلان، عملت البارحة كذا وكذا، وقد بات يستره ربه، ويصبح يكشف ستر الله عنه".

( كتاب الأدب،  باب: ستر المؤمن على نفسه، ٨ / ٢٠، ط: السلطانية)

ترجمہ:" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوا گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے اور گناہوں کو کھلم کھلا کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا) کام کرے اور اس کے باوجود کہ اللہ نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔"

البحر الرائق شرح كنز الدقائقمیں ہے:

"(قوله: والخليفة يؤخذ بالقصاص، والأموال لا بالحد) ؛ لأن الأول حقوق العباد لما أن حق استيفائها لمن له الحق فيكون الإمام فيه كغيره، وإن احتاج إلى المنعة فالمسلمون منعته فيقدر بهم على الاستيفاء فكان الوجوب مقيدا وبهذا يعلم أنه يجوز استيفاء القصاص بدون قضاء القاضي، والقضاء لتمكين الولي من استيفائه لا أنه شرط كما صرحوا به، وأما الثاني أعني الحدود، فإنما لا تقام عليه؛ لأن الحد حق الله تعالى، والإمام هو المكلف بإقامته وتعذر إقامته على نفسه؛ لأن إقامته بطريق الجزاء، والنكال ولا يفعل ذلك أحد بنفسه ولا ولاية لأحد عليه ليستوفيه وفائدة الإيجاب الاستيفاء، فإذا تعذر لم يجب وفعل نائبه كفعله؛ لأنه بأمره أطلق في الحد فشمل حد القذف؛ لأن المغلب فيه حق الشرع فكان كبقية الحدود، والمراد بالخليفة الإمام الذي ليس فوقه إمام وقيد به احترازا عن أمير البلدة، فإنه يقام عليه الحدود بأمر الإمام والله أعلم."

( كتاب الحدود، باب الوطء الذي يوجب الحد والذي لا يوجبه، ٥ / ٢١، ط: دار الكتاب الإسلامي )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144502101109

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں