بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زنا سے ٹھہرا ہوا تین ماہ کا حمل ساقط کرنے کا حکم


سوال

زناسےٹھہراہواحمل گرانا ازروۓشریعت کیساہے؟ ایک آدمی نےکسی  کنواری لڑکی سےمعاذاللہ زناکیا اور اسےحمل ٹھہرا جو کہ تین ماہ کاہے اب اسی حمل کو گرانےپرزانی اورمزنیہ ارتکاب زناکے ساتھ ساتھ قتل کےمرتکب تو نہیں ہوں گے؟

جواب

 واضح رہے کہ زنا شریعت میں انتہائی مذموم عمل اور حرام ہے، ایسے افراد پر صدق دل سے توبہ واستغفار اور آئندہ  کے لیے اس عمل سے باز  رہنے کا پکا عزم کرنا لازم ہے۔زنا کی وجہ سے اگر حمل ٹھہرجائے اور ابھی حمل میں جان نہیں پڑی، یعنی چار  ماہ  سے  کم کا حمل ہے تو   اس حمل  کے ساقط کرنے کی گنجائش ہے۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں  چوں کہ زنا سے ٹھہرا ہوا  حمل تین ماہ کا ہے تو اس کو ساقط  کرنے کی گنجائش ہے اور اس کی وجہ سے وہ قتل کے مرتکب نہیں ہوں گے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز".

(کتاب الکراہیۃ،الباب  الثامن عشر  فی التداوی والمعالجات،ج:5،ص:356،دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوما، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة كذا في الفتح، وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه لأنه أصل الصيد فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لا تأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح".

(کتاب النکاح ،باب نکاح الرقیق،مطلب فی حکم العزل،ج:3،ص:176،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100791

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں