بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زنا کی خبر لوگوں کو بتانا


سوال

 ایک باپ اپنی بیٹی سے دس سال تک زنا کرتا رہا، اور اس کی ماں کو جان سے مارنے کی دھمکی دیتا رہا، جس کی وجہ سے بیٹی نے یہ بات سب سے چھپا کر رکھی ہے، اور جب لڑکی ۱۸ سال کی ہوئی، تو باپ نے اس کے پیر پکڑ کر معافی بھی مانگی، اب یہ لڑکی اس  کی ماں اور بھائی  4  سال سے باپ سے الگ رہتے ہیں، اب یہ لڑکی اپنے بھائیوں کو یہ بات بتاۓگی، تو اس کے بھائی باپ کو جان سے مار سکتے ہے، تو لڑکی کیا کریں؟بھائیوں  کو یہ بات بتائیں یا نہ بتائیں ؟ آپ راہ نمائی فرمائیں،تو آپ کا احسان ہوگا۔

جواب

واضح رہے کہ بلا شبہ زنا کرنا کبیرہ گناہ ہے، خصوصاً جب اپنے محارم سے ہوتو اس کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے؛ تاہم صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا اپنی سگی بیٹی سے زنا کرنا ایک کبیرہ گناہ تھا، اس گناہ کی بناء پر حرمتِ مصاہرت کی  وجہ سے والد کی منکوحہ(لڑکی کی والدہ) والد پر حرام ہوگئی ہے،لڑکی  کا والد اپنی منکوحہ  کو  الفاظ کے ذریعے  جلد از جلد  اپنے نکاح سے خارج کردے،  نیز بچی کا جلدی سے کہیں نکاح کرادیں اور بچی باپ سے دور ہی رہے۔ تاہم  جب لڑکی کے والد نے لڑکی سے معافی مانگ لی ہے، اور امید ہے کہ توبہ بھی کرلی ہوگی، اسی لیے اس صورت میں بہتر اور افضل یہی ہے کہ لڑکی اس بات کو چھپاکر ہی رکھے، اسی میں آئندہ کےاعتبار سے لڑکی کےلیے اور باپ کےلیے بہتری ہے۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"(وسترها في الحدود أحب) لقوله - عليه الصلاة والسلام - ’’للذي شهد عنده لو سترته بثوبك لكان خيرا لك‘‘ وهذا الحديث ولفظ المختصر يدل على أنه مخير بين الستر والإظهار ولكن الستر أفضل لما روينا ولقوله - عليه الصلاة والسلام -: ’’من ستر على مسلم ستر الله عليه في الدنيا والآخرة‘‘........ وأصحابه دلالة ظاهرة على أن ‌الستر ‌أفضل، وإن شاء أظهر؛ لأن فيه حسبة أيضا؛ لأن فيه إزالة الفساد أو تقليله فكان حسنا."

(کتاب الشھادۃ، ج: 4، ص: 207، 208، ط: المطبعة الكبرى الأميرية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما في أسباب الحدود من الزنا والسرقة وشرب الخمر والقذف فهو مخير بين أن يشهد حسبة لله تعالى، وبين أن يستر؛ لأن كل واحد منهما أمر مندوب إليه، قال الله تبارك وتعالى: {وأقيموا الشهادة لله} [الطلاق: 2] ، و قال عليه الصلاة والسلام: ’’ من ‌ستر ‌على ‌مسلم ستر الله عليه في الدنيا والآخرة‘‘ وقد ندبه الشرع إلى كل واحد منهما، إن شاء اختار جهة الحسبة فأقامها لله تعالى، وإن شاء اختار جهة الستر فيستر على أخيه المسلم."

کتاب الشھادۃ، فصل في بيان ما يلزم الشاهد بتحمل الشهادة، ج: 6، ص: 282، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100320

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں