بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زنا کرنے کے بعد بچنے کے لیے جھوٹی قسم کھانے کا حکم


سوال

زید نے ایک خاتون کے ساتھ زنا کیا ہے اس خاتون نے زید پر صرف چھیڑنے کا الزام لگایا ہے، اب خاتون کے وارثین زید سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ قسم کھا لو کہ میں نے خاتون کو نہیں چھیڑا، ہم آپ کو چھوڑ دیں گے، ورنہ ہم آپ کو قتل کریں گے، اب مطلوب امر یہ ہے کہ زید نے حقیقتاً زنا کیا ہے، اب اگر  زیدچھیڑ چھاڑ نہ کرنے پر قسم کھا لے، جو کہ جھوٹی قسم ہے، تو زید کی جان بچ جائے گی، اور خاندان دشمنی سے بچ جائے گا، تو کیا زید کے لیے یہ جھوٹی قسم لینا جائز ہے کہ نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہوں میں سے شدید ترین گناہ ہے، جھوٹی قسم کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ رب العزت والقدرۃ کا نام استعمال کرکے اور اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر جھوٹ کہتاہے، اگر زید  جھوٹی قسم کھائے گا تو وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوگا، اسے چاہیے کہ اس قبیح فعل پر  اللہ تعالی سے خوب استغفار اور   سچی توبہ کرے، اور زید کا اس بارے ميں جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ  ہے، تاہم لڑکی کے خاندان والے  زید کو قتل نہیں کر سکتے، اس لیے کہ سزا دینے کا اختیار صرف قاضی  اور عدالت کے پاس ہے ،قاضی  یا عدالت کے علاوہ کوئی شرعی حد یا سزا قائم نہیں کر سکتا۔

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا ‌محمد بن مقاتل، أخبرنا ‌النضر، أخبرنا ‌شعبة، حدثنا ‌فراس قال: سمعت ‌الشعبي، عن ‌عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الكبائر الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس.»".

(‌‌‌‌كتاب الأيمان والنذور، باب اليمين الغموس، ج:8، ص:137، ط : المطبعة الكبرى الأميرية)

ترجمہ :" کبیرہ گناہ یہ ہیں ؛ اللہ تعالیٰ کےساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا۔"

الزواجر عن اقتراف الکبائر میں ہے:

"والطبراني وابن حبان في صحيحه واللفظ له: «‌من ‌أكبر ‌الكبائر الإشراك بالله وعقوق الوالدين واليمين الغموس، والذي نفسي بيده لا يحلف رجل على مثل جناح بعوضة إلا كانت كية في قلبه يوم القيامة» . والطبراني في الأوسط بسند قيل رجاله موثقون: أكبر الكبائر الشرك بالله واليمين الغموس ، ورواه الترمذي وحسنه وقال: وما حلف حالف بالله بيمين صبر فأدخل فيها مثل جناح بعوضة إلا جعلت نكتة في قلبه إلى يوم القيامة".

(کتاب الأیمان، ج:2، ص:301، ط:دار الفکر)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(وهي) أي اليمين بالله... (غموس) تغمسه في الإثم ثم النار، وهي كبيرة مطلقا، لكن إثم الكبائر متفاوت نهر (إن حلف على كاذب عمدا) ولو غير فعل أو ترك كوالله إنه حجز الآن في ماض (كوالله ما فعلت) كذا (عالما بفعله أو) حال (كوالله ما له علي ألف عالما بخلافه والله إنه بكر عالما بأنه غيره) وتقييدهم بالفعل والماضي اتفاقي أو أكثري (ويأثم بها) فتلزمه التوبة".

وفي الرد:

"(قوله وهي كبيرة مطلقا) أي اقتطع بها حق مسلم أو لا... و معلوم أن إثم الكبائر متفاوت. اهـ.وكذا قال المقدسي: أي مفسدة أعظم من هتك حرمة اسم الله تعالى...

(قوله ويأثم بها) أي إثما عظيما كما في الحاوي القدسي...

(قوله فتلزمه التوبة) إذ لا كفارة في الغموس يرتفع بها الإثم فتعينت التوبة للتخلص منه".

(‌‌كتاب الأيمان، ج:3، ص:705، ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وركنه: إقامة الإمام أو نائبه في الإقامة ويثبت الزنا بإقراره كذا في البحر الرائق. ولا يعتبر إقراره عند غير القاضي ممن لا ولاية له في إقامة الحدود".

(كتاب الحدود، ص:142، ج:2، ط؛رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101489

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں