اگر کوئی شخص کسی لڑکی سے زنا کرے اور پھر اس سے شادی کرنا چاہے تو کیا یہ جائز ہو گا؟
نکاح سے پہلے اجنبی لڑکی سے بات چیت، ملاقات کرنا ناجائز، اور اس سے ہم بستری کرنا ’’زنا‘‘ اور شدید گناہ تھا، اگر کسی شخص سے یہ سرزد ہوا تو سخت گناہ کا کام کیا، اس پر خوب توبہ و استغفار کرنی چاہیے۔
تاہم زنا کے بعد اسی لڑکی سے نکاح کرنا جائز ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 49):
"لو نكحها الزاني حل له وطؤها اتفاقاً، والولد له ولزمه النفقة.
(قوله: والولد له) أي إن جاءت بعد النكاح لستة أشهر، مختارات النوازل، فلو لأقل من ستة أشهر من وقت النكاح لايثبت النسب، ولايرث منه إلا أن يقول: هذا الولد مني، ولايقول: من الزنى، خانية. والظاهر أن هذا من حيث القضاء، أما من حيث الديانة فلايجوز له أن يدعيه؛ لأن الشرع قطع نسبه منه، فلايحل له استلحاقه به، ولذا لو صرح بأنه من الزنى لايثبت قضاءً أيضاً، وإنما يثبت لو لم يصرح؛ لاحتمال كونه بعقد سابق أو بشبهة حملاً لحال المسلم على الصلاح، وكذا ثبوته مطلقاً إذا جاءت به لستة أشهر من النكاح؛ لاحتمال علوقه بعد العقد، وأن ما قبل العقد كان انتفاخاً لا حملاً، ويحتاط في إثبات النسب ما أمكن". فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144109200945
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن