بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زنا بالجبر کا حکم


سوال

 اگر کوئی عورت یا لڑکی مجھے اس بات پر مجبور کرے کہ تم مجھ سے زنا کرو ،ورنہ میں تمہیں قتل کر دوں گی اور وہ عورت اس پر قادر بھی ہے ، اب ایسی صورت میں وہ شخص اگر اس کی بات مان لے تو کیا حکم ہوگا ؟ 

جواب

اگر کوئی عورت مرد کو زنا  پر مجبور کرے اور قتل کی دھمکی دے تو اس صورت میں بھی مرد کے لیے جائز نہیں ہوگا کہ وہ اس عورت کے ساتھ زنا کرے ، اگر وہ زنا کرے تو مرد بھی گناہ گار ہوگا ، البتہ اس صورت میں مرد پر شرعی حد جاری نہیں ہوگی ،بلکہ جبر کرنے والی عورت پر حد جاری ہوگی ۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن ابن عباس ولفظه ( ادرءوا ‌الحدود ‌بالشبهات)."

(کتاب الحدود، رقم الحدیث: 3569، ج: 6، ص:  2343، ط: دار الفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولو أكره على الزنا لا يرخص له) لأن فيه قتل النفس بضياعها لكنه لا يحد استحسانا، بل يغرم المهر - ولو طائعة - لأنهما لا يسقطان جميعا. شرح وهبانية (وفي جانب المرأة يرخص) لها ‌الزنا (‌بالإكراه الملجئ) لأن نسب الولد لا ينقطع فلم يكن في معنى القتل من جانبها بخلاف الرجل (لا بغيره لكنه يسقط الحد في زناها لا زناه) لأنه لما لم يكن الملجئ رخصة له لم يكن غير الملجئ شبهة له."

(کتاب الاکراہ، ج: 6، ص: 137، ط: سعید)

موسوعۃ الفقہ الاسلامی میں ہے:

"لو أكره الشخص بملجئ على الزنا لم يرخص له لأن فى الزنا قتل أنفس بضياعها اذ ولد الزنا هالك حكما لعدم من يربيه فلا يستباح بضرورة ما كالقتل. ولا يحد المكره عليه استحسانا. بل يغرم المهر ولو كان المزنى بها طائعة لأن المهر والحد لا يسقطان جميعا فى دار الاسلام. ولا يرجع على المكره بشئ لأن منفعة الوط‍ ء حصلت للزانى كما لو أكره على أكل طعام نفسه جائعا.

أما المرأة فيرخص لها ‌الزنا ‌بالاكراه الملجئ لأن نسب الولد لا ينقطع فلم يكن فى معنى القتل من جانبها بخلاف الرجل. ولا يرخص لها بغير الملجئ لكنه أى غير الملجئ يسقط‍ الحد فى زناها لأنه لما كان الملجئ رخصة لها كان غيره شبهة لها."

(‌‌الاكراه فى الزنا، مذهب الحنفية، ج: 23، ص: 114، ط: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية)

مجموعہ تعزیراتِ پاکستان میں  ہے:

"جنسی زیادتی یا آبروریزی

آرٹیکل 367 کے تحت جنسی تشدد کو بڑا جرم قرار دیا گیا ہے اور اس کی دو طرح کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ قانون کے مطابق زیادتی کا ارتکاب کرنے والے مجرم کو سزائے موت یا کم سے کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ 25 سال قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ سزا کی میعاد کا تعین کیس کی نوعیت پر ہوتا ہے اور مجرم پر بھاری جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے۔ اجتماعی زیادتی کی صورت میں ملوث تمام تر افراد کو سزائے موت یا عمرقید کی سزا دی جاسکتی ہے۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101619

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں