بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جُمادى الأولى 1446ھ 14 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کے ذمہ میں قضا روزے ہوں تو کیا ایسا شخص نفلی روزے رکھ سکتا ہے؟


سوال

اگر کسی شخص کے ذمے میں قضاکے روزے ہوں تو کیا وہ نفلی روزہ رکھ سکتا ہے ؟

جواب

جس شخص کے   ذمے  فرض روزوں کی قضا باقی  ہو   اور اس کی عادت ہو کہ وہ  مخصوص  فضیلت والے دنوں میں نفلی  روزہ رکھتا ہو تو    ایسےشخص کے لیےافضل یہ ہے کہ ان   روزوں کی قضا دوسرے ایام میں کرے اور ان فضیلت والے دنوں میں نفلی روزہ رکھے، تاکہ ان ایام کی فضیلت سے محروم نہ ہو۔  البتہ جس شخص کی مخصوص ایام میں روزہ رکھنے کی عادت نہ ہو تو  اس کے لیے افضل یہ ہے کہ ایسے دنوں میں نفلی روزہ رکھنے کے بجائے  قضا روزے رکھے،  لیکن اگر وہ  اس صورت نفلی روزہ   رکھ لیتا ہے تو  اس کونفلی روزے  کا ثواب ملے گا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

ولا بأس بقضاء رمضان في عشر ذي الحجة وهو مذهب عمر وعامة الصحابة - رضي الله عنهم - إلا شيئا حكي عن علي أنه قال: يكره فيها لما روي «عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه نهى عن قضاء رمضان في العشر»، الصحيح قول العامة لقوله تعالى: {فمن كان منكم مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر} مطلقا من غير فصل، ولأنها وقت يستحب فيها الصوم فكان القضاء فيها أولى من القضاء في غيرها، وما روي من الحديث غريب في حد الأحاديث، فلايجوز تقييد مطلق الكتاب وتخصيصه بمثله أو نحمله على الندب في حق من اعتاد التنفل بالصوم في هذه الأيام، فالأفضل في حقه أن يقضي في غيرها لئلا تفوته فضيلة صوم هذه الأيام ويقضي صوم رمضان في وقت آخر والله أعلم بالصواب.

(بدائع الصنائع: كتاب الصوم ، فصل بيان ما يسن وما يستحب للصائم وما يكره له أن يفعله 2/ 108،ط. دار الكتب العلمية، الطبعة: الثانية، 1406هـ - 1986م)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

ولا يكره صوم التطوع لمن عليه قضاء رمضان كذا في معراج الدراية.

(الفتاوى الهندية: كتاب الصوم، الباب الثالث فيما يكره للصائم وما لا يكره 1/ 201، ط:رشيديه)

فقط، والله اعلم


فتوی نمبر : 144212200847

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں