بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ذمہ داری اور عہدہ مانگنے کا حکم


سوال

کسی اسلامی حکومت میں عہدہ  مانگنا کیسا ہے؟حالاں کہ  حدیث میں  ہے "لاتسئل الامارة " کہ عہدہ نہ مانگاکرو، اسی طرح عہدہ کی پروموشن کا مطالبہ کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکومت کا کوئی عہدہ خود طلب کرنے سے منع فرمایا ہے اور جس کسی نے کسی عہدہ کی ازخود  درخواست کی اس کو عہدہ نہیں دیاہے ،حضرت عبد الرحمن بن سمرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ:

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:   امارت طلب مت کرو ،اگر مانگنے کے بعد امارت مل گئی تو پھر تو اس عہدے کے سپرد کر دیا جائے گا اور اگر امارت سوال کے بغیر مل جائے تو اس امارت پر اللہ تعالی کی طرف سے تیری مدد کی جائے گی۔  (ترجمہ از مظاہر حق)

اسی طرح حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ: 

میں اور میرے چچا کے دو بیٹے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے ،ان میں سے ایک نے کہا:  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مقام یا کام پر مجھے ذمہ دار بنا دیں جن پر اللہ تعالی نے آپ کو حکمران بنایا ہے ،دوسرے نے بھی اس طرح بات کی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اللہ کی قسم ہم ایسے شخص کو دین کے کام پر والی اور ذمہ دار نہیں بناتے جو ہم سے عہدہ کا طلب گار ہو اور نہ اس آدمی کو جو اس کی حرص رکھتا ہو۔

اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ہم اپنے کام پر کسی ایسے شخص کو عامل نہیں بناتے جو اس کا ارادہ رکھے۔  (ترجمہ از مظاہر حق)

البتہ  کسی  عہدہ کے متعلق اگر کسی کو یہ معلوم ہو کہ وہ اس کا اہل ہے ،اور کوئی دوسرا اس کے قائم مقام نہیں ہے جو اس عہدہ  کا اچھا انتظام کر سکے، اور گناہ میں مبتلا ہونے بھی کا خدشہ نہ ہو، اور  حُبِّ  جاہ و مال مقصود نہ ہو ،بلکہ نیت  اللہ کی مخلوق کی خدمت اور انصاف کے ساتھ ان کے حقوق پہنچانا ہو  تو اس صورت میں سرکاری عہدہ اور منصب کو طلب کرنا جائز    ہے۔

یہی حکم عہدہ کی پروموشن کا بھی ہے ۔

مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

دوسرامسئلہ :اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِسے یہ معلوم ہوا کہ کسی سرکاری عہدہ اور منصب کو طلب کرنا خاص صورتوں میں جائز ہے، جیسے یوسف (علیہ السلام) نے خزائن ارض کا انتظام اور ذمہ داری طلب فرمائی ۔مگر اس میں یہ تفصیل ہے کہ جب کسی خاص عہدہ کے متعلق یہ معلوم ہو کہ کوئی دوسرا آدمی اس کا اچھا انتظام نہیں کرسکے گا اور اپنے بارے میں یہ اندازہ ہو  کہ عہدہ کے کام کو اچھا انجام دے سکے گا ،اور کسی گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو ،ایسی حالت میں عہدہ کا خود طلب کرلینا بھی جائز ہے، بشرط یہ کہ حُبّ جاہ ومال اس کا سبب نہ ہو بلکہ خلق اللہ تعالیٰ کی صحیح خدمت اور انصاف کے ساتھ ان کے حقوق پہنچانا مقصود ہو ،جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سامنے صرف یہی مقصد تھا اور جہاں یہ صورت نہ ہو تو حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکومت کا کوئی عہدہ خود طلب کرنے سے منع فرمایا ہے اور جس نے خود کسی عہدہ کی درخواست کی اس کو عہدہ نہیں دیا ۔صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبدالرحمن بن سمرہ (رض) سے فرمایا کہ کبھی کوئی امارت طلب نہ کرو کیونکہ تم نے خود سوال کر کے عہدۃ امارت حاصل بھی کرلی تو اللہ تعالیٰ کی تائید نہیں ہوگی جس کے ذریعہ تم لغزشوں اور خطاؤں سے بچ سکو اور اگر بغیر درخواست اور طلب کے تمہیں کوئی عہدہ مل گیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید واعانت ہوگی جس کی وجہ سے تم اس عہدے کے پورے حقوق ادا کرسکو گے ۔اسی طرح صحیح مسلم کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی عہدہ کی درخواست کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا" انَّا لن نَّستَعملَ عَلیٰ عَملنا مَن اَرَادَہٗ "یعنی ہم اپنا عہدہ کسی ایسے شخص کو نہیں دیا کرتے جو خود اس کا طالب ہو۔

حضرت یوسف (علیہ السلام) کا طلب عہدہ خاص حکمت پر مبنی تھا :

مگر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا معاملہ اس سے مختلف ہے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بادشاہ مصر کافر ہے اس کا عملہ بھی ایسا ہی ہے اور ملک پر ایک طوفانی قحط آنے والا ہے ،اس وقت خود غرض لوگ عام خلق اللہ پر رحم نہ کھائیں گے اور لاکھوں انسان بھوک سے مر جائیں گے ،کوئی دوسرا آدمی ایسا موجود نہ تھا جو غریبوں کے حقوق میں انصاف کرسکے، اس لئے خود اس عہدہ کی درخواست کی اگرچہ اس کے ساتھ کچھ اپنے کمالات کا اظہار بھی بضرورت کرنا پڑا تاکہ بادشاہ مطمئن ہو کر عہدہ ان کو سپرد کر دے،اگر آج بھی کوئی شخص یہ محسوس کرے کہ کوئی عہدہ حکومت کا ایسا ہے جس کے فرائض کو کوئی دوسرا آدمی صحیح طور پر انجام دینے والا موجود نہیں اور خود اس کو یہ اندازا ہے کہ میں صحیح انجام دے سکتا ہوں تو اس کے لئے جائز ہے بلکہ واجب ہے کہ اس عہدہ کی خود درخواست کرے مگر اپنے جاہ ومال کے لئے نہیں بلکہ خدمت خلق کے لئے جس کا تعلق قلبی نیت اور ارادہ سے ہے جو اللہ تعالیٰ پر خوب روشن ہے ۔

(معارف القرآن،سورہ یوسف ،ج:5،ص:90،ط:مکتبہ معارف القرآن)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"والقسم الثالث- ما يجوز أن يتولاه لأهله، وللاجتهاد فيه مدخل كالقضايا والأحكام، فعقد التقليد محلول، فإن كان النظر تنفيذا للحكم بين متراضيين، وتوسطا بين مجبورين جاز، وإن كان إلزام إجبار لم يجز. الثالثة- ودلت الآية أيضا على جواز أن يخطب الإنسان عملا يكون له أهلا، فإن قيل: فقد روى مسلم عن عبد الرحمن بن سمرة قال قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم " يا عبد الرحمن لا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها". وعن أبي بردة قال قال أبو موسى: أقبلت إلى النبي صلى الله عليه وسلم ومعي رجلان من الأشعريين، أحدهما عن يميني والآخر عن يساري، فكلاهما سأل العمل، والنبي صلى الله عليه وسلم يستاك، فقال:" ما تقول يا أبا موسى- أو يا عبد الله بن قيس". قال قلت: والذي بعثك بالحق ما أطلعاني علما في أنفسهما، وما شعرت أنهما يطلبان العمل، قال: وكأني أنظر إلى سواكه تحت شفته وقد قلصت «1»، فقال:" لن- أولا نستعمل على عملنا من أراده" وذكر الحديث، خرجه مسلم أيضا وغيره، فالجواب: أولا- أن يوسف عليه السلام إنما طلب الولاية لأنه علم أنه لا أحد يقوم مقامه في العدل والإصلاح وتوصيل الفقراء إلى حقوقهم فرأى أن ذلك فرض متعين عليه فإنه لم يكن هناك غيره، وهكذا الحكم اليوم، لو علم إنسان من نفسه أنه يقوم بالحق في القضاء أو الحسبة ولم يكن هناك من يصلح ولا يقوم مقامه لتعين ذلك عليه، ووجب أن يتولاها ويسأل ذلك، ويخبر بصفاته التي يستحقها به من العلم والكفاية وغير ذلك، كما قال يوسف عليه السلام، فأما لو كان هناك من يقوم بها ويصلح لها وعلم بذلك فالأولى ألا يطلب، لقول عليه السلام لعبد الرحمن:" لا تسأل الإمارة" [وأيضا] «2» فإن في سؤالها والحرص عليها مع العلم بكثرة آفاتها وصعوبة التخلص منها دليل على أنه يطلبها لنفسه ولأغراضه، ومن كان هكذا يوشك أن تغلب عليه نفسه فيهلك، وهذا معنى قوله عليه السلام:" وكل إليها" ومن أباها لعلمه بآفاتها، ولخوفه من التقصير في حقوقها فر منها، ثم إن ابتلي بها فيرجى له التخلص منها، وهو معنى قوله:" أعين عليها"۔"

(سورہ یوسف ،ج:9،ص:216،ط:دار الکتب المصریۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102778

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں