بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زمال نام رکھنا کا حکم


سوال

میری بیٹی کا نام "زمال" ہے میری راہ نمائی فرمائیں ، میں بہت پریشان ہوں ،اگر تبدیل کروں تو کیا میں"زُمر " رکھ سکتی ہوں ؟اس کے کیا معانی ہیں ؟ اس کو میں نے سورہ زمر سے لیا ہے۔

جواب

’’زمال‘‘ کے معنی   لنگڑا کر چلنا ،کم زور اور  بزدل کے آتے ہیں ،  مذکورہ لفظ سے نام رکھنا مناسب نہیں ہے۔

’’زُمَر‘‘ کے معنی جم غفیر ،گروہ ، فوج اور جماعت  کے آتے ہیں ، معنیٰ کے اعتبار سے یہ نام رکھنے کی گنجائش ہوگی، لیکن بہتر یہ ہے کہ بچی کا نام صحابیات رضی اللہ عنہن  یا مسلمان نیک خواتین کے ناموں میں سے کسی نام پر رکھیں۔

جامعہ کی  ویب سائٹ پر اسلامی ناموں کے سیکشن میں بچوں اور بچیوں کے بہت سے منتخب اسلامی نام موجود ہیں، جنس اور حرف منتخب کرکے نام کا انتخاب کرسکتے ہیں۔

اسلامی نام

"المحيط البرهاني" میں ہے:

"روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: سموا أولادكم أسماء الأنبياء وأحب الأسماء إلى الله تعالى؛ عبد الله، وعبد الرحمن."

(كتاب الإستحسان والكراهية، ‌‌الفصل الرابع والعشرون في تسمية الأولاد وكناهم، ج:5، ص:382، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

"لسان العرب" میں ہے:

"زمال، وجمعه زمل، وثلاثة أزملة. ورجل ‌زمال وزميلة وزميل إذا كان ضعيفا فسلا."

(‌‌فصل الزاي المعجمة، ج:11، ص:311، ط:دار صادر بيروت)

"تاج العروس من جواهر القاموس" میں ہے:

"زمل، ‌يزمل، ‌ويزمل، ‌من ‌حدي ‌ضرب ‌ونصر، ‌زمالا، ‌بالكسر: عدا، وأسرع، معتمدا في أحد شقيه، رافعا جنبه الآخر، وكأنه يعتمد على رجل واحدة، وليس له بذلك تمكن المعتمد على رجليه جميعا. والزمال، ككتاب: ظلع في البعير يصيبه."

(‌‌فصل الزاي مع اللام، ز م ل، ج:29، ص:135، ط:دار إحياء التراث)

وفيه أيضا:

"(والزمرة، بالضم: الفوج) من النأه، والجماعة من الناس، (و) قيل: (الجماعة في تفرقة، ج زمر) ، كصرد. يقال: جاءوا زمرا، أي جماعات في تفرقة، بعضها إثر بعض. قال شيخنا: قال بعضهم: الزمرة مأخوذ من الزمر الي هو الصوت، إذ الجماعة لا تخلو عنه. وقيل: هي الجماعة القليلة، من قولهم: شاة زمرة، إذا كانت قليلة الشعر، انتهى."

(‌‌فصل الزاي مع الراء، زمر، ج:11، ص:443، ط:دار إحياء التراث)

"الفتاوی الهندية" میں ہے:

"وفي الفتاوى التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في عباده و لا ذكره رسول الله صلى الله عليه وسلم و لا استعمله المسلمون تكلموا فيه و الأولى أن لايفعل، كذا في المحيط."

(کتاب الکراهیة، الباب الثاني والعشرون في تسمية الأولاد وكناهم والعقيقة، ج:5، ص:362، ط:دار الفکر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100319

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں